سچ خبریں: رائے الیوم نے گمشدہ خزانہ کے عنوان سے اپنے ایک کالم میں غزہ پر زبردست بمباری میں اسرائیل کے دیوانہ وار غصے کا راز افشا کیا ہے۔
رائے الیوم انٹر ریجنل اخبار کی رپورٹ کے مطابق 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کے پہلے دن سے ہی غزہ پر ایسی شدید بمباری کی جا رہی ہے جس کی نظیر پورے خطے نے کئی سالوں سے نہیں دیکھی صہیونی جنگی طیاروں کے ذریعہ کی جانے والی تباہی کی مقدار حد سے بڑھ گئی ہے جس کے بعد اس علاقہ کو دوسرا ہیروشیما کہا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا ایک اور ہیروشیما بننے والا ہے؟
لیکن یہ شدید بمباری اور تباہی صرف فلسطینی مزاحمت کی طاقت کو مضبوط کرنے اور فلسطینی جوانوں کے غزہ کے اطراف کی بستیوں اور سرحدوں کے اندر داخل ہونے اور قابض افواج کے ساتھ براہ راست لڑنے کے عزم میں اضافے بلکہ اسرائیلی فوج میں سکیورٹی اور فوجی شخصیات کو گرفتار کرنے میں کامیابی اور صیہونی ریاست کو شید سکیورٹی دھچکا پہنچانے کا باعث نہیں بنی بلکہ اس کے دوسرے راز ہیں۔
مزاحمت کے اچانک حملے کے چند گھنٹے بعد، عبرانی میڈیا نے اس حقیقت پر توجہ مرکوز کی کہ ایک انتہائی خطرناک خفیہ حفاظتی خزانہ مزاحمت کاروں کے ہاتھ لگ گیا ہے لیکن اس کے تھوڑی دیر بعد ہی اسرائیلی سکیورٹی سروسز نے اس کیس کے بارے میں براہ راست بات کرنے سے سختی سے منع کر دیا گیا۔
اس مسئلے کے بارے میں پہلے تجزیوں سے پتہ چلتا ہے کہ القسام بٹالین کے مجاہدین نے طوفان الاقصی آپریشن کے دوران غزہ سے ملحقہ فوجی مراکز میں سے ایک کے اندر سے یہ خطرناک خزانہ حاصل کیا اور اسے مکمل طور پر خفیہ طریقے سے غزہ منتقل کر لیا،واضح طور پر، القسام کے بعض کمانڈروں اور اس کے ترجمان نے ایک ایسے خزانے کی دریافت کا اعلان کیا ہے جو اس علاقے کا عمومی چہرہ بدل کر رکھ دے گا اور صیہونی حکومت کو سخت مشکلات میں ڈال دے گا۔
لیکن مطلوبہ خزانہ کیا ہے؟،غزہ کی زیر زمین سرنگوں کا نقشہ، اہم فوجی مراکز، اسرائیلی حکومت کے لیے کام کرنے والے جاسوسوں کی تعداد اور مقام،خزانے کی تفصیلات ہیں، بہت سے تجزیہ کاروں اور مبصرین کا خیال ہے کہ حماس کے ہاتھ لگنے والا یہ خزانہ غزہ کے آس پاس کے قصبوں میں آپریشن کے دوران پکڑے گئے اسیروں سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔
اس اخبار کے مطابق صیہونی غاصبوں کا دعویٰ ہے کہ وہ فلسطینی مزاحمت کی قید میں موجود افراد کی تلاش میں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی اصل پریشانی یہ حفاظتی خزانہ ہے ، اسی وجہ سے وہ پورے علاقے کو تباہ کر رہے ہیں تاکہ یہ خزانہ یا تو ان کے ہاتھ لگ جائے یا جل جائے۔
دریں اثنا، انڈیپینڈنٹ اخبار نے اس مسئلے پر توجہ دی ہے اور تحریک حماس کے ایک ذریعے کے حوالے سے کہا ہے کہ اس تحریک کے مجاہدین کو غزہ کی سرحد پر صہیونی مراکز پر حملے کے دوران ایک اسٹریٹجک سکیورٹی خزانہ حاصل ہوا ہے۔
اس ذریعے نے کہا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس اور جاسوسی سروس کے عہدیدار غزہ کے ان کارکنوں سے ملنے کے لیے تیار تھے جو حماس کے حملے کے دن مقبوضہ علاقوں میں کام کر رہے تھے، جس کا مقصد فلسطینی مزاحمت کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھا،تاہم جب حماس کے مجاہدین نے ان کے دفاتر پر حملہ کیا ان ان کی فائلیں اور کمپیوٹر سسٹم کو اپنے قبضے میں لے کر انہیں حیران کر دیا گیا۔
اس ذریعہ نے مزید کہا کہ یہ سسٹم بہت زیادہ معلومات کے حامل ہیں اس حد تک کہ اس کی ضابطہ کشائی اور تجزیہ کے لیے مہینوں کا وقت درکار ہے، یہ واقعہ ایریز کراسنگ پر حملے کے دوران پیش آیا اور مزاحمتی فورسز نے اسرائیلی جاسوس ایجنسی کے افسران کو گرفتار کیا جو مقبوضہ علاقوں کے اندر فلسطینی کارکنوں کے زیر استعمال کراسنگ پر موجود تھے۔
حماس نے صیہونی حکومت کی انٹیلی جنس سروس کے ساتھ تعاون کرنے والوں کے ناموں کی فہرست اور ان کے ساتھ رابطے کے طریقے اور غزہ میں کام کرنے نیز آباد ہونے کے طریقوں کی فہرست حاصل کر لی ہے۔
حماس سے وابستہ اس ذریعے نے اس بات پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی جاسوسوں کی گرفتاری کے لیے جنگ کے خاتمے کا انتظار کر رہے ہیں ،یہ ایک سکیورٹی حملہ ہے جو کسی فوجی حملے سے کم موثر نہیں۔
اس سے قبل، نیویارک ٹائمز نے آپریشن کے ابتدائی اوقات سے حاصل ہونے والی ویڈیوز اور اسرائیلی سکیورٹی اہلکاروں کے انٹرویوز کی بنیاد پر لکھا تھا کہ مزاحمتی جنگجو کس طرح صہیونی فوج کے انٹیلی جنس مرکز تک پہنچے جبکہ غزہ میں صرف 10 مسلح افراد کو معلوم تھا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس سینٹر کس طرح تلاش کیے جا سکتے ہیں اور اس میں داخل ہوا جا سکتا ہے، تاہم وہ اسرائیل میں داخل ہونے کے بعد پانچ موٹرسائیکلوں کے ساتھ مشرق کی طرف چلے گئے ، ہر موٹرسائیکل پر دو افراد تھے،دس میل آگے چل کر وہ سڑک سے ہٹ کر ایک فوجی اڈے پر گئے،ایک چھوٹے سے دھماکے سے دیوار کو تباہ کر کے اس اڈے میں داخل ہو گئے، پہلے تو انہیں یقین نہیں تھا کہ کس سمت جانا ہے لیکن ان میں سے ایک نے اپنی جیب سے اس اڈے کا رنگین نقشہ نکالا اور اس کی مدد سے وہ ایک ایسی عمارت میں داخل ہوئے جو سسٹم اور کمپیوٹرز سے بھری ہوئی تھی، یہ حصہ اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس کا مرکز تھا۔
اس اخبار کے مطابق حماس کو اسرائیلی فوج کے آپریشن، خصوصی یونٹوں کے مقام اور معاون دستوں کی آمد کے لیے درکار وقت کا بھی بخوبی اندازہ تھا اور اس نے اس آپریشن کو انجام دے کر ایک ایسی قوم کو دنگ کر دیا جسے ایک طویل عرصے سے اپنی فوج کی برتری پر یقین تھا۔
مزید پڑھیں: یمن میں ایک اور ہیروشیما
آج صیہونی حکومت کی انٹیلی جنس اور فوجی طاقت کی کمزوری پہلے سے کہیں زیادہ نظر آتی ہے،صیہونی حکومت کے جاسوسوں اور غالباً فلسطینی اتھارٹی تنظیموں اور عرب ممالک کے جاسوسوں کی فعال موجودگی کے ساتھ ساتھ صیہونیوں کی طرف سے جدید ترین ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس نیز نگرانی کے آلات کے استعمال کے باوجود حماس طوفان الاقصیٰ آپریشن کے دوران اسرائیل کے سکیورٹی نظام کو حیران کرنے میں کامیاب رہی جو صیہونیوں کی کمزوری اور شکست کی علامت ہے، اس نے صیہونی دفاعی طاقت کو مکمل طور پر ظاہر کر دیا۔