(سچ خبریں) وفاقی کابینہ کے وزیر اعظم عمران خاں کی زیرصدارت جمعرات کو منعقدہ اجلاس میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اس فیصلے کو رد کر دیا گیا ہے جس میں پاکستان کے دشمن، بھارت سے چینی، کپاس اور سوتی دھاگہ درآمد کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔
کابینہ نے اس امر کا اعادہ کیا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات اس وقت تک معمول کی سطح پر بحال نہیں ہو سکتے جب تک بھارت کی جانب سے 5 اگست کا یکطرفہ اقدام واپس نہیں لیا جاتا۔
اطلاعات کے مطابق شاہ محمود قریشی، شیخ رشید، اسد عمر اور شیریں مزاری نے بھارت سے تجارت کی مخالفت کی، اس معاملے پر کابینہ کی ذیلی کمیٹی قائم کر دی گئی جو بھارت کے ساتھ تجارت کی تجاویز پر سفارشات دے گی۔
کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو فیصلے کی تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہیںہو سکتا کہ بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جائے، مسلمانوں کا قتل عام کیا جائے کشمیر کے لوگوں کو ان کے حقوق نہ دیں اور ہم یہ سمجھیں کہ اس سب کے باوجود ہم بھارت ہنسی خوشی رہ سکتے ہیں یہ ممکن نہیں ہے۔
آج کابینہ میں حکومتی پوزیشن یہی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے اسی پوزیشن کا اعادہ کیا اور زور دیا کہ اسی پوزیشن کو لے کر ہم آگے بڑھیں گے، ہم اب بھی بھارت کے ساتھ تعاون، دوستی اور معیشت میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن پہلی شرط یہی ہو گی کہ بھارت کشمیر پر 5 اگست کی پوزیشن پر واپس جائے۔
وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر، جو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں، نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی ہر ہفتے درجنوں اقدامات پر تجاویز دیتی ہے، وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کسی کی توثیق تو کوئی مسترد اور کسی میں ترمیم ہوتی ہے جمہوریت میں اسی طرح معاشی اور سیاسی فیصلے کئے جاتے ہیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ایک تاثر یہ ابھر رہا تھا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر آ چکے ہیں اور تجارت کھل گئی ہے کابینہ میں اس حوالے سے تبادلہ خیال ہوا۔
اس تاثر پر وزیر اعظم عمران خان اور کابینہ کی واضح اور متفقہ رائے یہ تھی کہ جب تک بھارت 5 اگست 2019ء کے یکطرفہ اقدامات پر نظرثانی نہیں کرتا اس وقت تک بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ممکن نہیں۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر نے ایک روز قبل ہی پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ کمیٹی نے بھارت سے نجی شعبہ کے ذریعے 5 لاکھ ٹن چینی 30 جون تک درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے کیونکہ بھارت میں چینی کی قیمت پاکستان کے مقابلے میں 15 سے 20 فیصد تک کم ہے۔
اس لیے ہم نے نجی شعبے کے ذریعے بھارت سے 5 لاکھ ٹن تک چینی کی تجارت کھولنے کا فیصلہ کیا ہے، پاکستان میں اس وقت کپاس کی بہت زیادہ مانگ ہے، ہماری ٹیکسٹائل کی برآمدات میں اضافہ ہوا اور پچھلے سال کپاس کی فصل اچھی نہیں ہوئی تھی تو ہم نے ساری دنیا سے کپاس کی درآمدات کی اجازت دی ہوئی ہے لیکن بھارت سے اجازت نہیں تھی، اب بھارت سے کپاس درآمد کرنے کی اجازت ہو گی۔
حماد اظہر نے کہا کہ حکومتوں کو کبھی سخت فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں اور بڑے فیصلے کے بغیر حکومتیں اور قومیں آگے جاتی بھی نہیں ہیں۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے پر وفاقی کابینہ کے ارکان کی جانب سے جس قسم کے منتشر الخیال بلکہ متضاد آراء پر مبنی رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ حکومت اور خصوصاً کابینہ میں جمع کئے گئے مختلف سوچ کے حامل بھان متی کے کنبے میں ذہنی ہم آہنگی، فکر کی یکسوئی اور باہمی رابطے کا کس قدر شدید فقدان ہے۔
کابینہ میں اختلاف رائے کوئی انہونی بات نہیں تاہم اپنے اڑھائی سالہ دور اقتدار میں موجودہ حکومت نے مختلف معاملات میں جس قدر تیزی سے پینترے بدلے ہیں،ان کی وجہ سے یوٹرن اس کا طرۂ امتیاز بن چکا ہے اگر حکومتی سطح پر معمولی شعور کا مظاہرہ بھی کیا جاتا تو وزیر خزانہ اس قدر حساس اور نازک قومی معاملہ پر اس قدر عجلت میں اعلان سے احتراز کرتے، یوں وفاقی کابینہ میں پیدا ہونے والی صورت حال سے جس سبکی کا سامنا انہیں کرنا پڑا اس سے بآسانی بچا جا سکتا تھا، اس طرح کے عاجلانہ فیصلوں اور اعلانات کی وجہ سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اعتماد کا بحران جنم لیتا ہے جو قومی عزت و وقار کے لیے نقصان کا سبب بنتا ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جو اعلان سامنے آیا ہے اس سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حکومتی سطح پر بھارت سے تجارت کے معاملہ پر اب بھی سوچ میں یکسوئی موجود نہیں کیونکہ کابینہ نے اس ضمن میں واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کرنے کی بجائے معاملہ کا جائزہ لے کر سفارشات پیش کرنے کے لیے ذیلی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے گویا ذیلی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کے مطابق بھارت سے تجارت اور درآمدات کی گنجائش اب بھی موجود ہے یوں سچ یہ ہے کہ کابینہ نے بھارت سے تجارت کے فیصلے کو مسترد نہیں بلکہ مؤخر کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی سے ایک غلطی ہو گئی جس کی وفاقی کابینہ نے اصلاح کر دی بلکہ اس ضمن میں بھارت کے ساتھ حکومتی سطح پر روابط کا پس منظر بھی ذہن میں رہنا چاہئے بھارت کے انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی کے پاکستان کے یوم جمہیوریہ کے موقع پر 23 مارچ کو پاکستانی عوام کے نام مبارک باد کے منافقانہ پیغام اور جواب میں وزیر اعظم عمران خاں کے خیر سگالی کے پیغام، دونوں ملکوں کے مابین جنگ بندی لائن کی خلاف ورزیوں پر ہاٹ لائن پر رابطہ اور نتیجے میں صورتحال میں نمایاں بہتری، اسی طرح بھارت کی آبی جارجیت سے متعلق دونوں ملکوں کے ماہرین کے مذاکرات کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ حقیقت نمایاں ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر تعلقات کی بہتری اور فروغ کے لیے موثر کوششیں کی جا رہی ہیں اور تجارت کی بحالی کا اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اعلان بھی انہیں کوششوں کا حصہ تھا تاہم رائے عامہ کی جانب سے اس پر شدید رد عمل کے باعث حکومت کو اسے فی الحال واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔
امریکہ کے ابلاغی ادارے بلو مبرگ نے بھی گزشتہ دنوں اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کی بہتری کے لیے متحدہ عرب امارات کی کوششوں سے خفیہ مذاکرات شروع ہو چکے ہیں اور اس ضمن میں ہونے والی پیش رفت انہی کوششوں کا ثمر ہے۔
اس مقصد کے لیے متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کی اہم شخصیات اور وزیر خارجہ پاکستانی اور بھارتی حکام سے رابطہ میں ہیں، بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا اور ابو ظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زائد سے ملاقات کی ان سے قبل پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی ولی عہد سے ملاقات کر چکے تھے۔
امارات کے وزیر خارجہ نے وزیر اعظم عمران خاں سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔ پاکستان اور بھارت بہرحال ہمسایہ ممالک ہیں اور دونوں ملکوں کے مابین امن اور بہتر تعلقات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں مگر تعلقات کی بہتری کی کسی بھی کوشش سے قبل دونوں ملکوں کے تعلقات کی نزاکت کا خیال رکھا جانا ضروری ہے، اس ضمن میں گزشتہ پون صدی کے دوران منفی بھارتی کردار اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینے کا اس کا ماضی فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔