نیتن یاہو احتجاج کرنے والے صیہونیوں کو کیسے سڑکوں پر لائے؟

بحران

🗓️

سچ خبریں:نومبر 2022 کے انتخابات میں نیتن یاہو کے حامی دھڑے کی فتح سے ایسا لگتا تھا کہ مقبوضہ علاقوں میں حالیہ 4 سالہ سیاسی بحران حل ہو گیا ہے لیکن نئی کابینہ کا منصوبہ ایک نئے بحران میں تبدیل ہو گیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بنیامین نیتن یاہو کو پچھلے 30 سالوں میں اسرائیل کے سیاسی میدان میں سب سے اہم اور سب سے زیادہ ہنر مند اداکار سمجھا جاتا ہے، اس عرصے کے دوران وہ تین مرتبہ اسرائیلی حکومت میں اعلیٰ ترین سیاسی عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے،یہ پہلی بار 1996 میں وزیراعظم بنے اور 1999 تک اس عہدے پر رہے،تاہم 1999 کے وزیر اعظم کے انتخابات میں شکست نے نیتن یاہو کو اسرائیلی حکومت اور لیکوڈ پارٹی کے سربراہ کے عہدے سے محروم کر دیا، تاہم 10 سال بعد جب کاڈیماہ 2009 کے انتخابات میں اتحاد بنانے میں ناکام رہے تو نیتن یاہو نے اس کام کو پورا کیا اور اقتدار میں واپس آئے، انہوں نے 2021 تک مسلسل اپنی پوزیشن برقرار رکھی لیکن 2021 کے موسم گرما میں نیتن یاہو کی اپوزیشن جماعتیں بالآخر انہیں اقتدار سے ہٹانے اور نفتالی بینیٹ کی مدد سے انہیں شکست دینے میں کامیاب ہو گئیں۔ لیکن نیتن یاہو کی اقتدار سے غیر حاضری صرف 1 سال اور 6 ماہ تک جاری رہی اور دسمبر 2022 کے اختتام کے بعد تیسری بار اقتدار میں واپس آگئے جبکہ ان کا سیاسی طرز عمل ایسا رہا ہے کہ وہ اپنے سیاسی ساتھیوں کو مسلسل کھوتے رہے ہیں اور ان کے مخالفین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

ہم آہنگی کے عنصر سے رکاوٹ کے عنصر تک
نیتن یاہو کا بنیادی مسئلہ، جس نے پچھلے 10 سالوں میں بہت سے نقصانات اٹھائے ہیں، ان کی آمریت اور شخصیت پرستی کا مسئلہ ہے، انہوں نے اپنی پارٹنر پارٹیوں اور لیکوڈ پارٹی کے اراکین کے ساتھ ایسا ہی رویہ اپنایا، مثال کے طور پر نئی صدی کے پہلے سالوں میں اسرائیل میں بائیں اور دائیں بازو کی بڑی جماعتوں لیبر پارٹی اور لیکوڈ کے درمیان نظریاتی اختلافات نے دونوں جماعتوں کو آپسی تعاون کرنے کی اجازت نہیں دی، اس طرح کہ بائیں بازو کے لوگ بھی لیکوڈ پارٹی کے اتحاد میں شامل ہو گئے نیز لیکوڈ پارٹی کی بھی بائیں بازو کے اتحاد میں شامل ہونے کی تاریخ ہے لیکن لیبر پارٹی کے ارکان کے ساتھ نیتن یاہو کا سیاسی رویہ ایسا تھا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان اتحادی سطح پر آخری تعاون 2011 میں ختم ہوا تو اس وقت کے بعد لیکوڈ اور لیبر پارٹیوں میں ہمیشہ بہت سے اختلافات رہے ہیں، 2013 کے انتخابات کے بعد، یش عتید پارٹی کے سربراہ یائر لاپڈ اور جیوش ہاؤس پارٹی کے اس وقت کے رہنما نفتالی بینیٹ، جنہوں نے مل کر 31 نشستیں حاصل کیں، نے برادرہڈ کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا اور اعلان کیا کہ وہ صرف نیتن یاہو اور لیکوڈ پارٹی کے ساتھ ملک کر اتحادی کابینہ بنائیں گے، لاپڈ اور بینیٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں نیتن یاہو مذہبی جماعتوں کو اتحاد سے باہر نکلنے پر مجبور ہو گئے اور اعتدال پسند اور زیادہ لبرل جماعتوں جیسے یش عتید اور لیوونی کی قیادت میں ہاتنوعاہ کے ساتھ کابینہ تشکیل دی لیکن نیتن یاہو نے لاپڈ اور لیونی کے ساتھ وہی سلوک دہرایا اور دسمبر 2014 میں ان دونوں کو کابینہ سے نکال دیا،یہ فیصلہ نیتن یاہو سے لاپڈ اور لیونی کی مستقل علیحدگی کا سبب بنا، اور مزید اعتدال پسند اور زیادہ لبرل جماعتوں نے نیتن یاہو کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔

2018 کے آخر میں نیتن یاہو کی کابینہ سے اسرائیل ہاؤس پارٹی کے رہنما ایویگڈور لیبرمین کی علیحدگی کے بعد ان کی مخالفت ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی کیونکہ نیتن یاہو کے مخالفین کا وزن آہستہ آہستہ بڑھتا گیا اور وہ پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے اور کابینہ کی تشکیل کے بارے میں سوچنے میں کامیاب ہو گئے، اپریل 2019 کے انتخابات میں، لیبرمین نے ایک بار پھر نیتن یاہو کی وزارت عظمیٰ کی حمایت کی لیکن جب انھوں نے نیتن یاہو کی ممکنہ کابینہ میں مذہبی جماعتوں کی طاقت میں نمایاں اضافہ دیکھا تو انھوں نے اس کابینہ کی تشکیل کی مخالفت کی اور آہستہ آہستہ حزب اختلاف میں شامل ہو گئے۔ اس وقت بنی گینٹر کی موجودگی اور بلیک اینڈ وائٹ اتحاد کی تشکیل سے اس اتحاد اور لیکوڈ پارٹی کے درمیان سخت مقابلہ ہوا اور آخر کار مقبوضہ علاقوں میں مسلسل تین انتخابات ہوئے۔

نیتن یاہو کے کیمپ میں اگلا بڑا مسئلہ لیکوڈ پارٹی میں ان کی قیادت کی مخالفت ہے،لیکوڈ پارٹی میں نیتن یاہو کے مخالفین نے 2019 میں گیدعون صعر کی قیادت کی حمایت کی، لیکن نیتن یاہو اس انٹرا پارٹی الیکشن کو اپنے حق میں ختم کرنے میں کامیاب رہے،نیتن یاہو کے اندرونی مخالفین (جنہیں لکوڈنکس کہا جاتا ہے) کی جانب سے پارٹی کی قیادت میں تبدیلی کا اعلان کرنے کے بعد گیدعون صعر نے نومبر 2020 میں لیکوڈ چھوڑ دی اور نیو ہوپ کے نام سے ایک نئی پارٹی کی بنیاد رکھی، جسے لیکوڈ بغیر نیتن یاہو کے کہا جا سکتا ہے۔

اس طرح گزشتہ 10 سالوں میں نیتن یاہو اسرائیلی حکومت کو متحد کرنے والے ایک اہم عنصر میں تبدیل ہو گئے ہیں، جو درحقیقت مسلسل 5 انتخابات کا انعقاد نیتن یاہو کے سیاسی میدان میں جاری رہنے کے اصرار کی وجہ سے تھا، اگرچہ حالیہ انتخابات نے ظاہر کیا کہ کھلے عدالتی مقدمات ہونے کے باوجود نیتن یاہو کو صیہونی حکومت کے آباد کاروں کی کافی حمایت حاصل ہے، لیکوڈ پارٹی نے نومبر 2022 کے انتخابات میں 10 لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے اور کچھ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے فقدان کی وجہ سے نیتن یاہو 64 سیٹیں جیت کر اتحاد بنانے میں کامیاب ہوئے، اس کے باوجود نیتن یاہو کی کابینہ کا منصوبہ اسرائیل میں سماجی و سیاسی بحران کا ایک نیا عنصر بن گیا ہے۔

انتخابی بحران سے بیوروکریٹک بحران تک
نومبر 2022 کے انتخابات میں نیتن یاہو کے حامی دھڑے کی کامیابی سے ایسا لگتا تھا کہ مقبوضہ علاقوں میں حالیہ 4 سالہ سیاسی بحران حل ہو گیا ہے لیکن نئی کابینہ کا منصوبہ ایک نئے بحران میں تبدیل ہو گیا ہے جس نے نیتن یاہو کی مخالفت کرنے والے آباد کاروں میں عدم اطمینان پیدا کیا ہے جب کہ نیتن یاہو کی نئی کابینہ کو برسراقتدار آئے ابھی ایک ماہ سے بھی کم کا عرصہ گزرا ہے، اس کابینہ کی سپریم کورٹ کی طاقت کو کم کرنے کی کوششوں نے سڑکوں پر زبردست احتجاج کو جنم کیا اور تقریباً 100000 لوگوں کو سڑکوں پر آنے کا باعث بنی، اس کے ساتھ ہی وکلاء اور ججوں، اساتذہ، بینکرز اور معاشی کارکنوں کے مختلف گروپوں نے بھی احتجاجی مارچ شروع کر دیا ، یہاں تک کہ انتخابات سے پتہ چلتا ہے کہ نیتن یاہو کی حمایت کرنے والی جماعتوں کے تقریباً نصف حامی بھی ان اصلاحات کے خلاف ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی کا اصل محرک نیتن یاہو کے پانچ مقدمات کو بند کر کے انہیں غیر موثر بنانا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ نئی کابینہ کی پالیسیاں مزید مخالفت کا باعث بنیں گی، خاص طور پر تعلیمی، مذہبی اور سماجی پالیسیوں میں جو تبدیلیاں اسرائیلی معاشرے میں واضح ہو رہی ہیں، ان میں ایسی صلاحیت موجود ہے، درحقیقت گزشتہ چار برسوں کا انتخابی بحران حل نہیں ہوا بلکہ یہ اب سیاسی دائرے سے نکل کر انتظامی اور سماجی میدان میں داخل ہو گیا ہے اور اس کے نتیجے میں اس معاشرے کے آدھے حصے کا شدید ردعمل سامنے آئے گا۔

مشہور خبریں۔

کیا ملک میں دہشتگردی کے خطرات بڑھ رہے ہیں؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ

🗓️ 1 اگست 2024سچ خبریں: اقوام متحدہ نے دہشتگردی پر نئی رپورٹ جاری کی ہے

حکومتی اقدامات تاحال بے سود، یوریا کی قیمت میں مزید اضافہ

🗓️ 24 دسمبر 2023اسلام آباد: (سچ خبریں) حکومتی دعوے اور اقدامات تاحال بے سود ثابت

وزیر اعظم کا پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کی بدانتظامی پر اظہار افسوس

🗓️ 8 مئی 2022لاہور(سچ خبریں)وزیر اعظم نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کی بدانتظامی

 کیا ٹرمپ صیہونیوں کی حمایت میں حکم جاری کریں گے؟

🗓️ 30 جنوری 2025سچ خبریں: نیویارک پوسٹ نے اعلان کیا کہ اس نے ایک سرکاری

یمن کے خلاف جنگ اور محاصرہ واشنگٹن کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں: امریکی تھینک ٹینک

🗓️ 17 نومبر 2021سچ خبریں:ایک امریکی تھنک ٹینک نے یمن کی جنگ اور محاصرے کو

صیہونی جنگجوؤں نے مجدو جیل میں فلسطینی قیدیوں پر کیا حملہ

🗓️ 24 مارچ 2022سچ خبریں:   فلسطینی قیدیوں کے خلاف اسرائیلی فوج کی جارحانہ کارروائیوں کا

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے کوشاں

🗓️ 27 نومبر 2022اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سربراہ آصف

17 جولائی سے پہلے پی ٹی آئی کو لاہور ہائی کورٹ سے ریلیف مل گیا

🗓️ 16 جولائی 2022لاہور: (سچ خبریں)الیکشن سے پہلے تحریک انصاف کو بڑی کامیابی مل گئی۔پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے