سچ خبریں: غزہ کی پٹی میں جنگ کے آغاز کو ڈھائی ماہ گزر چکے ہیں لیکن اس سے قبل بھی کئی ممالک کو اپنی ناقابل تسخیریت کے سراب سے ڈرانے والی صیہونی فوج اب تک اس علاقے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہے۔
المیادین چینل کی ویب سائیٹ نے غزہ کی پٹی میں جاری جنگ کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی قوتیں صیہونی حکومت کی پیش قدمی کے خلاف ڈٹی ہوئی ہیں، تل ابیب کے ڈویژن کے مطابق تیسرے مرحلے میں ہونے والی ان پیش قدمیوں میں غزہ کی پٹی کا جنوب اور اس کا مرکز شامل ہے جبکہ شمالی حصے میں بھی تنازعات جاری ہیں، تاہم ہر روز اسرائیلی فوج کو شہروں اور رہائشی علاقوں کے مرکز کے قریب آتے ہی بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
غزہ کی پٹی میں تنازعات کے محور
ہم غزہ کی پٹی کے شمال میں بیت حانون سے شروع کرتے ہیں، صہیونی فوج نے غزہ کی پٹی سے الگ ہونے والے اس چھوٹے سے قصبے کا کنٹرول سنبھالنے کی ڈھائی ماہ کی کوششوں کے بعد اس علاقے میں جنگی کاروائیاں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے،اگرچہ صہیونی فوج نے بیت حانون میں جنگی کاروائیوں کے خاتمے کا اعلان کیا ہے لیکن مزاحمتی قوتیں اس شہر میں صیہونی غاصبوں کو حیران کر سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں صیہونی ہاری ہوئی فوج کی سب سے بڑی کامیابی
فلسطینی امور کے تجزیہ کار عبدالرحمن نصار نے اس حوالے سے کہا کہ صیہونی غاصبوں کے ہاتھوں بیت حانون پر قبضہ کرنا کوئی فوجی کامیابی نہیں سمجھی جاتی اور یہ بات مغربی افواج کو اچھی طرح معلوم ہے، خاص طور پر چونکہ یہ مسئلہ زیربحث ہے کہ ایک طویل عرصے سے اتنے وسیع پیمانے پر ہونے والے تنازعات کے بعد ایک چھوٹے سے علاقے قبضہ کیا گیا ہے۔
اس کے باوجود غزہ کی پٹی کے شمالی محاذ میں بہت سی مشکلات ہیں، خاص طور پر جبالیا، تل الزعتر اور بیت لاہیا، جہاں مضبوط مزاحمتی فورسز موجود ہیں،اس موقف نے صیہونی قابض افواج کو جنگی طیاروں کے وسیع فضائی احاطہ کے باوجود قبضہ شدہ علاقوں کو مستحکم کرنے میں ناکام بنا دیا ہے۔
غزہ شہر میں مزاحمتی قوتوں نے شیخ رضوان، الشجاعیہ اور الزیتون کے محلوں میں صہیونی قابضین کے ساتھ اپنی شدید لڑائی جاری رکھی ہے جس کے بعد صہیونی فوجی ابھی تک ان تینوں محلوں میں تنازعات کو اپنے حق میں نہیں روک سکے ہیں۔
غزہ کی پٹی کے وسط میں واقع دیر البلح اور النصیرات میں بھی جھڑپیں جاری ہیں نیز غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع خان یونس خاص طور پر اس کے مشرقی اور شمالی علاقوں میں جارحیت پسندوں کے ساتھ مزاحمتی فورسز کی لڑائی کا سلسلہ جاری ہے۔
ادھر صیہونی حکومت غزہ کے جنوب میں واقع صلاح الدین محور میں اپنی پیش قدمی کی بات کرتی ہے، اس محور کی چوڑائی چند سو میٹر سے زیادہ نہیں ہے اور اس کی لمبائی بحیرہ روم سے کرم ابو سالم تک 15 کلومیٹر ہے،اس کراسنگ محور کو مصر اور صیہونی حکومت کے درمیان 1979 میں ہونے والے معاہدے میں بفر زون کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا اور اس معاہدے کی بنیاد پر 750 مصری فوجی اس زون میں اس کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تعینات ہیں۔
کارنیٹ میزائل کی رونمائی
غزہ کی پٹی سے متعلق تازہ ترین میدانی صورتحا میں سے ایک بیت لاہیا میں میدان جنگ میں کارنیٹ میزائلوں کا دوبارہ نمودار ہونا ہے،یہ اس وقت ہے جب صیہونی حکومت کا خیال تھا کہ وہ کارنیٹ میزائل ڈپو کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
مزاحمتی قوتوں کی طرف سے مقبوضہ علاقوں کے اندر میزائل حملوں کے حجم میں کمی کے باوجود یہ حملے بدستور جاری ہیں،طوفان الاقصیٰ کے آغاز کے 74 دن بعد تل ابیب کے خلاف کل کے راکٹ حملے نے صیہونی حکومت کو شدید صدمے سے دوچار کر دیا۔
غزہ کی سرنگوں کی مضبوطی
عبدالرحمن نصار نےغزہ میں ان سرنگوں کے بارے میں جنہیں مزاحمتی قوتیں صیہونی غاصبوں کے خلاف لڑنے اور نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرتی ہیں، کہا کہ اس پٹی میں ہمارے پاس کئی قسم کی سرنگیں ہیں،مزاحمتی قوتوں کی نقل و حرکت کے لیے استعمال ہونے والی سرنگیں،علاقے میں دراندازی کرنے والے حملہ آوروں کو نشانہ بنانے کے لیے دفاعی سرنگیں اور خصوصی پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے میزائل داغنے کے لیے سرنگیں،جنگی کارروائیوں کے لیے سرنگیں اور چھاتہ برداروں کے لیے سرنگیں نیز خوراک اور پانی پر مشتمل لاجسٹک سرنگیں ہیں۔
مذکورہ سرنگوں کو 2021 کی جنگ کے بعد مزاحمتی قوتوں نے آہنی دروازوں سے لیس کیا تھا کیونکہ صیہونی حکومت مزاحمتی قوتوں کو نشانہ بنانے کے لیے ان سرنگوں میں بے بو اور بے رنگ گیسیں استعمال کرتی ہے،یہ دروازے آبدوزوں کے دروازوں کی طرح ہیں اور سرنگوں میں گیس اور پانی کے داخلے کو روکتے ہیں۔
غزہ کی پٹی میں سرنگوں کی ایک اور طاقت یہ ہے کہ مزاحمتی قوتوں نے یہ سرنگیں مختلف گہرائیوں اور مختلف علاقوں میں بنائی ہیں، ان میں سے بعض سرنگوں کی گہرائی زیر زمین 50 میٹر تک ہے اور انہیں صیہونی حکومت کے بھاری راکٹوں سے نشانہ بنانا ناممکن ہے۔
یہ سرنگیں صہیونی فوج کے لیے ایک بڑی معمہ اور گرہ بن گئی ہیں ، جنگ کے تعین میں ان سرنگوں کے اثر و رسوخ اور اہمیت کے باوجود صہیونی فوج کے پاس ان کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں ہے۔
مزاحمتی سرنگوں کی تاریخ
القسام بریگیڈز نے 2005 میں غزہ کی پٹی سے صیہونی حکومت کے انخلاء سے برسوں پہلے زیر زمین سرنگوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا،2004 میں، فلسطینی فورسز ابو ہولی چوکی کے نیچے ایک سرنگ کھودنے میں کامیاب ہوئیں جس نے غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقوں کو اپنے مرکز سے الگ کر دیا، اس وقت اس سرنگ کی لمبائی 495 میٹر اور زیر زمین 4 میٹر کی گہرائی تک تھی، سرنگ کا اختتام ابو ہولی کے علاقے میں آپریشن کمانڈ کی عمارت تک بھی پہنچا جس کی گہرائی 80 سینٹی میٹر تھی۔
اس وقت متذکرہ سرنگ تین شاخوں مشرق، مرکز اور مغرب میں تقسیم تھی اور اس سرنگ کی شاخوں میں بہت سے بم رکھے گئے تھے۔ مثال کے طور پر 650 کلو وزنی ایک انتہائی طاقتور بم مشرقی شاخ میں، 700 کلو وزنی بم مغربی شاخ میں اور 650 کلو وزنی بم درمیانی شاخ میں رکھا گیا تھا،اس سرنگ میں کل 2000 کلو گرام بارودی مواد رکھا گیا تھا جو 06/27/2004 کو پھٹا جس کے نتیجے میں دشمن کی آپریشنز کمانڈ کی عمارت مکمل طور پر تباہ اور سات صیہونی فوجیوں کی موت ہو گئی۔
اس کے بعد سے القسام بٹالینز کی آپریشن کمانڈ نے جارحانہ سرنگوں کو ایک موثر حکمت عملی کے طور پر دیکھا ہے، خاص طور پر جب کہ صیہونی فوج کی طرف سے مشرقی سرحدوں کے ساتھ ایک بڑے بفر زون کی تشکیل کے بعد مزاحمتی قوتوں کے پاس چھپنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، 2006 میں، القسام، ناصر صلاح الدین اور جیش الاسلام بٹالینز کی افواج ایک سرنگ کھود کر کرم ابو سالم کراسنگ کے قریب واقع صوفہ بیس تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں اور دشمن کے متعدد فوجیوں کو ہلاک اور مشہور گلعاد شالیط پر قبضہ کر لیا۔
2008 کی جنگ جو گلعاد کی آزادی کے لیے ہوئی اور 22 دن تک جاری رہی، کے بعد القسام کی افواج کو اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑا کہ صہیونی فوج وسیع پیمانے پر ڈرونز کا استعمال کرتی ہے جو سینکڑوں مزاحمتی قوتوں کی نگرانی کر سکتے ہیں ، اس جنگ کے بعد ہی القسام کی افواج نے 10 سال تک سینکڑوں کلومیٹر زیر زمین سرنگیں کھودنے کا ایک بڑا منصوبہ شروع کیا،یہ زیر زمین شہر غزہ کی پٹی کے مختلف محلوں اور مقامات کو جوڑتا ہے۔
القسام بٹالینز کے بعض ذرائع کے مطابق اس سرنگ کے نیٹ ورک کی لمبائی 470 کلومیٹر تک ہے اور اس کے ساتھ درجنوں حملہ آور سرنگیں ہیں، 2008 سے اب تک مزاحمتی قوتوں کی ایک بڑی تعداد ان سرنگوں کو کھودتے ہوئے اپنی جانیں گنوا چکی ہے اور شہید ہو چکی ہے،ان سرنگوں کا اصل امتحان 2014 کی جنگ میں ہوا جب مزاحمتی قوتوں نے ان کے ذریعہ الشجاعیہ، الفتاح اور رفح کے آس پاس کے جارح عناصر اور حملہ آوروں کو نشانہ بنایا۔
مزید پڑھیں: غزہ میں کسی بھی قسم کی کامیابی 7 اکتوبر کی شکست کے داغ کو نہیں مٹا سکتی
2014 کی جنگ میں ان سرنگوں کی قدر اور پوزیشن کا تکنیکی اور لاجسٹک سطح پر پہلے سے کہیں زیادہ تعین کیا گیا ، خاص طور پر اس لیے کہ اس زیر زمین نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے ناحل اوز، بیس 16 اور ابومطیق میں صہیونی فوجی ٹھکانوں پر حملے کیے گئے۔