سچ خبریں:سعودی عرب کے ٹھوس ایندھن پروڈکشن کمپلیکس کی نئی تصاویر کے اجراء نے میڈیا میں نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے،کچھ نے مشرق وسطیٰ میں اسلحے کی ایک نئی دوڑ کے آغاز کی بات کی ہے، جب کہ دوسرے اسے چین امریکہ دشمنی کا حصہ سمجھتے ہیں،تاہم حقیقت کیا ہے کسی کو نہیں معلوم۔
سعودی عرب میں راکٹ سالڈ فیول پروڈکشن کمپلیکس کی نئی تصاویر کا اجرا کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ کمپلیکس اس ملک میں ایک عرصے سے زیر تعمیر ہے اور بلاشبہ یہ بیلسٹک میزائلوں کے میدان میں دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون بھی کرتا ہے، یوکرائن ایک اور ملک ہے جس کے ساتھ سعودی عرب بیلسٹک میزائلوں کی تیاری میں تعاون کر رہا ہے جبکہ چین کے برعکس، کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کی تیاری میں اس ملک کی سرگرمی سعودی عرب کے لیے وقف ہے،واضح رہے کہ گروم میزائل سسٹم 300 کلومیٹر تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل ہے جو انتہائی درستگی کے ساتھ اہداف کو تباہ کر سکتا ہے۔
یادرہے کہ اس میزائل سسٹم کا ڈیزائن سوویت یونین دور کا ہے اور یوکرائن صرف مالی مسائل کی وجہ سے اس ڈیزائن کو مکمل نہیں کر پا رہا ہے، اب سعودی عرب کی شرکت سے یہ منصوبہ مکمل ہو کراس ملک کے میزائل ہتھیاروں کا حصہ بننا ہے، بلاشبہ اس منصوبے میں صرف سعودی عرب ہی سرمایہ کار نہیں ہے بلکہ متحدہ عرب امارات بھی اسے خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
قابل ذکرہے کہ سعودیوں کے برعکس متحدہ عرب امارات نے مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل خریدنے کی کوشش کی ہے، جن میں سے پہلا شمالی کوریا کا اسکاڈ میزائل تھا، یہاں تک کہ 1400 کلومیٹر تک مار کرنے والے DF-21 میزائلوں کی خریداری کے بارے میں بھی میڈیا میں افواہیں آتی رہی ہیں، تاہم سعودیوں کی جانب سے میزائل خریدے جانے کے بارے میں ابھی تک کوئی رد رعمل سامنے نہیں آیا ہے، لیکن سعودی میزائل ایندھن کے کمپلیکس پر ایک نیا تنازعہ یہ سنگین سوال اٹھاتا ہے کہ کیا سعودی مکمل طور پر میزائلوں کی دوڑ شروع کر رہے ہیں۔