🗓️
سچ خبریں: ایسا لگتا ہے کہ تل ابیب کے ساتھ دو ماہ سے زیادہ کی جنگ کے دوران حماس کی مزاحمت اور فلسطینی اتھارٹی کے علاقے مغربی کنارے میں اس گروہ کی حمایت میں اضافے نے صہیونی رہنماؤں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
صیہونی حکومت اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان تعلقات گزشتہ چند دہائیوں کے دوران اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں،غزہ کی موجودہ جنگ میں اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ پالیسی کے باوجود، جو زیادہ تر سفارتی کوششوں کی حمایت پر مبنی ہے، ماضی کی طرح، اس حکومت کے رہنما اتھارٹی کے اس طرز عمل کو حماس کے ساتھ اس کے کبھی کبھار تعاون کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مغربی کنارے میں حماس کی سماجی مقبولیت؛امریکی اخبار کی زبانی
بنیامین نیتن یاہو نے Knesset خارجہ امور اور سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ یہ امکان نہیں ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی افواج کے ساتھ جنگ ہو، اس کے لیے ہمارے پاس بڑے منصوبے ہیں،ہم اس منظر نامے کی چھان بین کر رہے ہیں اور ہم ایک ایسی صورتحال تک پہنچنا چاہتے ہیں جہاں ہمارے ہیلی کاپٹر چند منٹوں میں اس طرح کے منظر نامے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں، ایسا لگتا ہے کہ اس نقطہ نظر کی بنیاد پر فلسطینی اتھارٹی کے درمیان تصادم کا امکان ہے۔
فلسطینی اتھارٹی اور صیہونی حکومت کے ساتھ صلح
فلسطینی اتھارٹی کا قیام سنہ 1994 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن اور صیہونی حکومت کے درمیان ہونے والے اوسلو معاہدے کے بعد پانچ سالہ عبوری حکومت کے طور پر عمل میں آیا تھا تاکہ اس عرصے کے دوران دونوں فریقوں کے درمیان حتمی مذاکرات کیے جا سکیں۔ پہلے پہل اس اتھارٹی نے 1948 کی سرحدوں پر زور دیا، لیکن آہستہ آہستہ یہ 1967 کی سرحدوں جن میں مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مشرقی یروشلم شامل ہیں، پر راضی ہو گئی تاکہ اسرائیلی ریاست کے شانہ بشانہ ایک فلسطینی ریاست بنائی جا سکے، پانچ سال کے بعد امن مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے اور یاسر عرفات کی طرف سے 1999 میں یکطرفہ طور پر آزادی کا اعلان کرنے کی دھمکی کے باوجود، فلسطینی حکومت قائم نہیں ہو سکی،تب سے لے کر اب تک صیہونی حکومت اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان امن کے لیے بہت سے منصوبے اور مذاکرات ہوئے، جو سب ناکام رہے،ان میں ہم 1998 میں وائی ریور ایگریمنٹ (وائی ریور میمورنڈم)، 2000 میں کیمپ ڈیوڈ مذاکرات، 2003 میں روڈ میپ پروجیکٹ اور 2007 میں ایناپولس کانفرنس کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔
2005 میں محمود عباس اور صیہونی وزیر اعظم ایریل شیرون کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں دوسرا انتفادہ ختم ہوا اور غزہ سے قابض حکومت کے انخلاء کے بعد خود اتھارٹی نے اس علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا،اسی سال مقبوضہ علاقوں میں سابق امریکی سفیر مارٹن انڈِک نے بروکنگز میں شائع ہونے والے ایک کالم میں صیہونی حکومت اور فلسطینیوں کے درمیان امن عمل کو بحال کرنے کے لیے چھ بنیادی اقدامات کی فہرست دی، جن میں خود فلسطینی اتھارٹی کی صلاحیت کو مضبوط کرنا،اس کے زیر کنٹرول تمام علاقوں اور دھڑوں پر موثر اختیار کا استعمال ایک بنیادی چیز تھی۔
2008 میں خود فلسطینی اتھارٹی اور صیوہنی حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا،نیتن یاہو کی وزارت عظمیٰ پر واپسی کے بعد 2010 میں مذاکرات کی کوششیں کی گئیں جو بے نتیجہ رہی، 2011 میں وکی لیکس کی معلومات کی بنیاد پر صیہونی حکومت کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کی بات چیت کے مواد پر مشتمل 600 دستاویزات کے انکشاف نے محمود عباس کو کمزور کر دیا۔ ان دستاویزات کا مواد، جس میں فلسطینی اتھارٹی کے ذلت آمیز رویے اور ابو مازن کے کچھ ساتھیوں کی بدعنوانی کو ظاہر کیا گیا،اس تنظیم کے چیف مذاکرات کار صاحب عریقات کے استعفیٰ کے مطالبے کا باعث بنا۔ ان دستاویزات میں سے کچھ کے مندرجات الجزیرہ ٹی وی پر نشر کیے گئے، ان دستاویزات کے مطابق اور 2011 کے بعد مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کے معاشی بدعنوانوں سے پوچھ گچھ کی گئی تو معلوم ہوا کہ محمود عباس کے بچے طارق اور خالد رشوت کے حصول اور فلسطینیوں کے پیسے استعمال کر کے امیر بن گئے ہیں۔
صدی کی ڈیل اور حکومت کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کا سکیورٹی تعاون
2017 کے بعد صیہونی حکومت اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان تعلقات ڈیل آف دی سنچری پروجیکٹ سے متاثر ہوئے، اس تنظیم کے ایک بڑے حصے اور محمود عباس نے اس پلان کی مخالفت کا اعلان کر دیا،مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ PA نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اپنی قانونی حیثیت کو مذاکرات کے ذریعے فلسطینیوں کے کچھ حقوق دوبارہ حاصل کرنے کے لیے باندھ رکھا تھا جب کہ یہ منصوبہ تنظیم کے مفاد میں نہیں تھا، گزشتہ معاہدوں میں فلسطین کا 66% حصہ فلسطینیوں اور فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن یہ منصوبہ 66 فیصد میں سے 40 فیصد، جو فلسطین کے پورے رقبے سے زیادہ ہے، ان سے لے گا،اس کے بجائے فلسطینی اتھارٹی نے امریکہ، روس، اقوام متحدہ اور یورپی یونین پر مشتمل مشرق وسطیٰ کے چار گروپ کے سامنے فلسطین کی ایک آزاد اور سویلین ریاست کی تشکیل کی صورت میں اپنا مطلوبہ منصوبہ پیش کیا۔
اس دوران اہم نکتہ ان سالوں میں فلسطینی اتھارٹی اور حکومت کے درمیان اقتصادی اور سیکورٹی تعاون ہے جو گزشتہ تین دہائیوں سے دوران جاری ہے،دریں اثنا 2019 میں ہونے والے ایک سروے میں تقریباً 65 فیصد فلسطینیوں نے کہا کہ وہ سکیورٹی تعاون ختم کرنا چاہتے ہیں،طوفان الاقصیٰ آپریشن سے پہلے فلسطینی اتھارٹی کا کردار بنیادی طور پر ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے جیسے اقدامات میں ثالث کا کردار ادا کرنا تھا۔
طوفان الاقصیٰ اور مسائل کا انکشاف
حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان اختلافات کی وجہ حماس اور الفتح کے درمیان 2006-2011 میں ہونے والی دشمنی ہے،الفتح آرگنائزیشن نے مشرق وسطیٰ کے گروپ آف فور کی شرائط قبول کیں جن میں اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا، اسرائیل کے ساتھ سابقہ معاہدوں کو تسلیم کرنا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی منظوری شامل ہے تاہم حماس نے ان کی مخالفت کی،دوسری جانب 2006 کے انتخابات میں حماس کی فتح اور اسماعیل ہنیہ کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے صیہونی حکومت نے غزہ کی پٹی میں حماس پر اقتصادی اور فوجی ناکہ بندی کر کے پرانی فتح تحریک کے زیر انتظام فلسیطنی اتھارٹی کی حمایت کی
یہ اختلافات طوفان الاقصیٰ میں ظاہر ہوئے ،اگرچہ محمود عباس نے آپریشن کے آغاز میں کہا کہ فلسطینی قوم کو آباد کاروں اور قابض افواج کی دہشت گردی کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے لیکن بعد کے دنوں میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ حماس کی پالیسیاں اور اقدامات خلاف فلسطینی قوم کی رائے کی عکاسی نہیں کرتی ہیں،اس کے باوجود، ایسا لگتا ہے کہ طوفان الاقصیٰ نے فلسطینی اتھارٹی کے اندر ساختی مسائل کو ظاہر کیا،اس تنظیم نے 2005 کے بعد سے کوئی انتخابات نہیں کروائے ہیں اور موجودہ حالات میں اسے محدود طرز حکمرانی، اقتصادی چیلنج، عباس کے بعد قیادت کے خلا اور سب سے اہم قانونی حیثیت کے بحران کا سامنا ہے۔
آبادکاروں کے حملوں سے شہریوں کی حفاظت کے لیے اس تنظیم کی طاقت اس حد تک کم ہوئی ہے کہ نیتن یاہو نے گریٹر اسرائیل بنانے کا دعویٰ کیا ہے،مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کی مخالفت میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر نوجوان نسل میں،فلسطین سروے اینڈ پالیسی ریسرچ سینٹر کے حالیہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ 53 فیصد فلسطینی عوام نے اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کو ایک آزاد ریاست کے حصول کا سب سے مؤثر طریقہ قرار دیا اور 49 فیصد نے قابض حکومت کی تحلیل کی حمایت کی۔
مغربی کنارے میں حماس کی حمایت میں اضافے پر تشویش
طوفان الاقصی آپریشن کے آغاز سے ہی صیہونی حکومت نے فلسطینی اتھارٹی پر حماس کے ساتھ تعاون کا الزام لگایا ہے،خاص طور پر اس حکومت کے داخلی سلامتی کے وزیر بن گوئر نے فلسطینی اتھارٹی کو حماس کے اسرائیل کے خلاف اکسانے میں ایک شراکت دار کے طور پر پیش کیا،واضح ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کی فوجی طاقت بنیادی طور پر اس خطے میں داخلی سلامتی فراہم کرنے تک محدود ہے اور ان میں حکومت کے صیہونی خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت نہیں ہے نیز صیہونی حکومت کی تشویش فلسطینی اتھارٹینہیں بلکہ مغربی کنارے کے فلسطینیوں میں حماس کی حمایت میں اضافہ ہے۔
مزید پڑھیں: مغربی کنارے سے صیہونیوں کو کیا ملنے والا ہے؟
فلسطین پولنگ اینڈ پالیسی ریسرچ سینٹر کے ایک حالیہ سروے کے مطابق غزہ میں 57 فیصد اور مغربی کنارے میں 82 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ اکتوبر میں ہونے والے حملے میں حماس نے درست کاروائی کی، بڑی اکثریت کا خیال ہے کہ حماس کا دعویٰ ہے کہ اس نے صیہونی انتہا پسندوں کے خلاف مقبوضہ بیت المقدس میں اسلامی مقدس مقامات کے دفاع اور فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے کاروائی کی، یہ حمایت میدان میں بھی دکھائی گئی اور مغربی کنارے میں صیہونی فوجیوں پر فلسطینیوں کے حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، دوسری جانب صیہونی حکومت فوجی طاقت کے علاوہ ان حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آباد کاروں کی طاقت پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے جن کی تعداد اس علاقے میں تین لاکھ سے زیادہ ہے خاص طور پر حالیہ جنگ کے دوران مسلح آباد کاروں نے فلسطینی برادریوں کو مغربی کنارے سے باہر نکالنے کی شدید خواہش ظاہر کی ہے۔
نتیجہ
ایسا لگتا ہے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ دو ماہ سے زیادہ کی جنگ کے دوران حماس کی مزاحمت اور فلسطینی اتھارٹی کے علاقے مغربی کنارے میں اس گروہ کی حمایت میں اضافے نے حکومت کے رہنماؤں کو تشویش میں ڈال دیا ہے،فلسطینی اتھارٹی کے خلاف دھمکیاں بھی دو اہم مقاصد سے وابستہ ہیں،سب سے پہلے صیہونی حکومت کے ساتھ مزید سکیورٹی تعاون کے لیے فلسطینی اتھارٹی پر مزید دباؤ،اس کے ساتھ ہی حماس نے فلسطینی اتھارٹی سے کہا ہے کہ وہ صیہونی حکومت کے ساتھ سکیورٹی کوآرڈینیشن بند کریں اور اوسلو معاہدے کو منسوخ کریں نیز جامع مزاحمت کی طرف رجوع کریں،تحریک فتح کے ایک رکن عبدالعطیرہ کا خیال ہے کہ اسرائیل نے تمام فلسطینی عوام کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے اور موجودہ جنگ کا مقصد جبری بے گھری، قتل و غارت اور تمام بنیادی ڈھانچے اور گھروں کی تباہی کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو ختم کرنا ہے، اسرائیل مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کو ایک ایسی جنگ پر اکسا رہا ہے جو مساوی نہیں ہے اور فلسطینی عوام کے مفاد میں قابض لوگ زبردستی لوگوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے درپے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوگا۔
مشہور خبریں۔
سعودی عرب میں مسیار کے نام سے خفیہ شادی کا وسیع پیمانے پر بڑھتا رجحان
🗓️ 7 جولائی 2021سچ خبریں:مسیار شادی کی ایک قسم ہے جو ازدواجی فرائض کی پاسداری
جولائی
مشتعل مظاہرین کا مقبوضہ بیت المقدس میں نیتن یاہو کی رہائش گاہ پر حملہ
🗓️ 4 اپریل 2024سچ خبریں: مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں
اپریل
فلسطینیوں اور صیہونیوں کے درمیان جھڑپیں
🗓️ 11 اگست 2023سچ خبریں:فلسطینی ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا ہے کہ مغربی نابلس میں
اگست
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے تازہ ترین دہشت گردانہ کاروائی میں مزید 2 کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا
🗓️ 23 جولائی 2021سرینگر (سچ خبریں) مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے آئے دن
جولائی
متعدد سعودی سرکاری افسران کرپشن کے الزام میں گرفتار
🗓️ 6 مارچ 2023سچ خبریں:سعودی ذرائع ابلاغ نے مالی بدعنوانی کے الزام میں اس ملک
مارچ
علاقائی تبدیلی کا متحدہ عرب امارات پر بیرونی مداخلت روکنے کے لیے دباؤ
🗓️ 23 اکتوبر 2021سچ خبریں:ایک بین الاقوامی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ علاقائی تبدیلی
اکتوبر
غزہ کی تازی ترین صورتحال
🗓️ 19 نومبر 2023سچ خبریں:امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق کہ اس حکومت کے اکثر
نومبر
یوکرینی فوجی شکست کے بعد پُل گرا دیتے ہیں:برطانیہ
🗓️ 16 جون 2022سچ خبریں:برطانوی وزارت دفاع نے یہ بتاتے ہوئے کہ روسی اور یوکرینی
جون