🗓️
سچ خبریں:2 سالہ فلسطینی بچے کی شہادت صیہونی حکومت کے سنگین جرائم کی ایک اور دستاویز ہے جس نے گزشتہ 2 دہائیوں میں کم از کم 2500 معصوم بچوں کو اپنی نسل پرستانہ پالیسیوں کی بھینٹ چڑھایا ہے۔
بظاہر انسانی حقوق کی حمایت کرنے والے مغربی ممالک کی خاموشی کے درمیان صیہونی حکومت کے جرائم کا معاملہ روز بروز سنگین تر ہوتا جا رہا ہے اور حالیہ دنوں میں ان درندوں کے ہاتھوں ایک تین سالہ فلسطینی بچے کی شہادت ہزاروں معصوم بچوں کے سلسلہ وار قتل کی ایک کڑی ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل صہیونی فوجیوں نے 2 سالہ فلسطینی بچے محمد ہیثم التمیمی کے اہل خانہ کی گاڑی پر براہ راست گولیاں برسائیں، جس سے اس بچہ سر اور اس کے والد کا کندھا اور ہاتھ زخمی ہو گیا،اس واقعے کے بارے میں ایک بیان میں اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ مشکوک فائرنگ کے جواب میں اسرائیلی فوجی گولی چلانے پر مجبور ہوئے،اسرائیلی فوج معصوم لوگوں کے زخمی ہونے پر افسوس کا اظہار کرتی ہے اور ایسے واقعات کو رونما ہونے سے روکنے کے لیے کام کر رہی ہے،اسی دوران محمد ہیثم کے والد نے صہیونی فوج کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے تاکید کی کہ ہم نے فائرنگ کا تبادلہ نہیں دیکھا،بات صرف یہ تھی کہ انہوں نے ہماری گاڑی پر بلا اشتعال گولی چلائی۔
یاد رہے کہ اس واقعے کے چند روز بعد نبی صالح گاؤں کا یہ بچہ رام اللہ میں صیہونی حکومت کے بچوں کو قتل کرنے والے دہشت گردوں کی گولی لگنے سے زخمی ہونے کی وجہ سے شہید ہوگیا، نبی صالح رام اللہ کے شمال مغرب میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس نے برسوں سے صیہونی حکومت کی بستیوں کی تعمیر کے خلاف مزاحمت کی ہے اور اس دوران اپنے درجنوں باشندوں کی گرفتاریوں، زخمیوں اور شہادتوں کا مشاہدہ کیا ہے، اس کے مکینوں کا خیال ہے کہ گرفتاریوں اور تشدد کی لہر اس گاؤں کے لوگوں کی مزاحمت کو توڑنے کی صیہونی حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے، تاہم وہ مزاحمت کے راستے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
اس نظریے کے ساتھ یہ گاؤں مغربی کنارے میں صیہونی قبضے کے خلاف مختلف مظاہروں کی وجہ سے کافی عرصے سے سرخیوں میں نظر آتا ہے نیز اسی وجہ سے یہ صہیونی فوج کے شدید دباؤ کا شکار ہے، جس کی وجہ سے اطلاعات کے مطابق 1967 سے اس گاؤں کے کم از کم 27 رہائشی شہید ہوئے ہیں جبکہ 2009 سے اب تک 400 زخمی اور 400 کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن اس گاؤں کے ایک تین سالہ بچے کی شہادت نے دیگر ممالک میں بچوں کو قتل کرنے والی صیہونی حکومت کے خلاف نفرت کی لہر دوڑا دی ہے۔
صیہونیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے بچوں کے اعدادوشمار
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے آغاز سے اب تک کم از کم 156 فلسطینی اسرائیلیوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں لیکن 2 سالہ بچے کی شہادت پر غور کریں تو یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ حالیہ برسوں میں کتنے فلسطینی بچے صیہونی حکومت کے نسل پرستی پر مبنی جرائم کا نشانہ بنے؟ پچھلی دو دہائیوں میں شہید ہونے والے بچوں کی تعداد پر ایک شماریاتی نظر ڈالیں تو ان جرائم کی گہرائی کا پتہ چلتا ہے، شائع شدہ اطلاعات کے مطابق فلسطین میں 2000 سے 2021 کے آخر تک شہید ہونے والے بچوں کی تعداد 2230 تک پہنچ گئی جن میں سے 315 2009 میں غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کی جارحیت کے دوران شہید ہوئے جبکہ2014 میں صیہونی حکومت کی جارحیت کے دوران 546 بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے،مئی 2021 میں غزہ کی پٹی پر قابض افواج کی 11 روزہ جارحیت میں فلسطینی بچے صیہونی حکومت کے اہداف میں سرفہرست تھے اور لڑاکا طیاروں نے فلسطینیوں کے گھروں پر وحشیانہ بمباری کی جس سے سینکڑوں افراد شہید ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ مئی کے حملوں کا نشانہ بننے والے 232 فلسطینیوں میں سے 65 بچے تھے،قابل ذکر ہے کہ فلسطینی بچوں کا وحشیانہ قتل کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو عالمی اداکاروں اور اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی اداروں کی نطروں سے پوشیدہ ہو لیکن ان کے ردعمل میں زیادہ تر ہی دیکھنے کو ملتی ہے جو ایک طرح کی سیاست کاری ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے گزشتہ سال جولائی میں بچوں اور مسلح تنازعات کے موضوع پر اپنی سالانہ رپورٹ میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینی بچوں کے قتل پر بات کی تھی اور اس 45 صفحات پر مشتمل سالانہ رپورٹ کے ایک حصے میں کہا تھا کہ اسرائیل 2021 میں فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں 78 فلسطینی بچوں کے قتل اور 982 دیگر بچوں کے معذور ہونے کا ذمہ دار ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے مطابق 85 فلسطینی بچوں کو اسرائیلی فورسز نے حراست میں رکھنے کے دوران بدسلوکی کا نشانہ بنایا جبکہ 75 فیصد بچوں کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
گوٹیرس کی رپورٹ کے مطابق 1121 فلسطینی اور 7 اسرائیلیوں سمیت مجموعی طور پر 1128 بچے معذور ہوئے جن میں سے 661 بچے غزہ میں اور 464 بچے مشرقی بیت المقدس سمیت مقبوضہ مغربی کنارے میں معذور ہوئے جبکہ اسرائیل میں تین بچے معذور ہوئے، اقوام متحدہ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ فلسطینی بچوں کی سب سے زیادہ شہادتوں کا تعلق سال 2008، 2014 اور 2021 سے ہے۔ 2008 کے آخر میں غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کی 22 روزہ جارحیت کے دوران 315 بچے شہید ہوئے۔ اس کے علاوہ صیہونی حکومت نے 2014 میں غزہ کی پٹی پر جارحیت کے دوران 546 فلسطینی بچوں کو شہید کیا جبکہ2021 میں غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کی 11 روزہ جارحیت کے نتیجے میں 72 فلسطینی بچے شہید ہوئے۔
خلاصہ
صرف 22 سال کے عرصے میں 2500 سے زائد فلسطینی بچوں کی شہادت سکے کا ایک رخ ہے جبکہ قابض حکومت کے ہاتھوں اسکولوں کو تباہ کرکے ان بچوں کو بے سہارا اور پسماندہ رکھنے کی کوشش سکے کا دوسرا رخ ہے،مشرقی بیت المقدس میں پرمٹ کے بہانے 66 طالب علموں کے پانچ جماعت کے ایک ایلیمنٹری اسکول کی تباہی، جو صرف چند ہفتے قبل (17 مئی) ہوئی کو اس نوعیت کے جرم جو قابض حکومت کے تعلیمی شعبے میں بار بار کیے جانے والے جرائم اور بین الاقوامی کنونشنز، اصولوں اور قوانین کی پرواہ کیے بغیر بچوں، طلبہ، تدریسی عملے اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کے فریم ورک میں ہوتا ہے کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے۔
بچوں کو مارنے یا انہیں کمزور کرنے کی دونوں صورتوں میں، انسانی حقوق کی دعویدار مغربی حکومتوں نے ان جرائم پر ایسے آنکھیں بند کر رکھی ہیں جیسے کسی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے جبکہ برسوں سے ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں جو انسانی حقوق اور زندگی کے حق کے دفاع کا دعویٰ کرتے ہوئے مغرب کی پالیسیوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں بلکہ مقبوضہ علاقے میں صیہونی حکومت کے قتل و غارت اور جرائم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں،جبکہ مغربی ممالک نے ہمیشہ صیہونی حکومت کی حمایت کی ہے یا کم از کم اس حوالے سے خاموشی اختیار کر لی ہے۔
تاہم ہماری شدید تنقید اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کونسل سمیت اس کی ذیلی تنظیموں پر ہے، جن کا وجودی فلسفہ انسانی حقوق کی حمایت اور دہشت گردی نیز بےگناہ لوگوں کے قتل کا مقابلہ کرنا ہے،تا ہم صیہونی حکومت کی طرف سے فلسطینی بچوں کے ساتھ پرتشدد اور زبردستی سلوک کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر بچوں کے حقوق کے کنونشن کے آرٹیکل 16، جو بچوں کے ساتھ پرتشدد سلوک کی ممانعت کرتا ہے۔
مشہور خبریں۔
فلسطین کے حامیوں نے برطانوی دفتر خارجہ کا داخلی راستہ بند کیا
🗓️ 25 جولائی 2024سچ خبریں: انگلستان میں فلسطین کے حامیوں نے صیہونی حکومت کو ہتھیار
جولائی
فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل کرتے تو 9 مئی کا واقعہ بھی شاید نہ ہوتا، چیف جسٹس
🗓️ 6 مئی 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس
مئی
الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کیے جانے کے تاثر کو مسترد کردیا
🗓️ 26 اکتوبر 2023اسلام آباد: (سچ خبریں) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے
اکتوبر
افغانستان میں مغربی ثقافت کی کوئی جگہ نہیں: طالبان
🗓️ 26 اگست 2022سچ خبریں: اقوام متحدہ میں طالبان کے منتخب نمائندے سہیل شاہین
اگست
عراق کے وزیراعظم کا 12 سال بعد دورہ شام
🗓️ 16 جولائی 2023سچ خبریں:عراق کی سرکاری خبر رساں ایجنسی WAA نے اعلان کیا کہ
جولائی
Crismonita Dwi Putri, RI`s Track Cycling Athlete for Asian Games
🗓️ 21 اگست 2022Dropcap the popularization of the “ideal measure” has led to advice such
اگست
یوکرائن حکومت کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ
🗓️ 3 مارچ 2022سچ خبریں:اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی بین الاقوامی کمیٹی کے خصوصی
مارچ
ہم مسجد اقصیٰ میں یہودی خزعبلات کو پھانسی کی اجازت نہیں دیں گے: ہنیہ
🗓️ 22 مئی 2022سچ خبریں: فلسطین کی اسلامی استقامتی تحریک حماس نے آج اتوار کو
مئی