سچ خبریں:بیشتر مسلم ممالک کے عوام کی مخالفت کے باوجود اور متحدہ عرب امارات کا صیہونی قابض حکومت کے درمیان سمجھوتہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جس کی وجہ سے متحدہ عرب امارات صہیونیوں کے لیے جنت بن چکا ہے۔
ابوظہبی میں اسرائیلی سفارت خانہ اور دبئی میں اس کے قونصل خانے کا افتتاح گذشتہ منگل صیہونی حکومت کے پہلے عہدیدار ، نئے اسرائیلی وزیر خارجہ ،یئر لاپڈ کے متحدہ عرب امارات کے دورے کے ساتھ ہوا جس کے بعد دونوں حکومتوں کے مابین تعلقات ڈپلومیسی کی سطح کے عروج پر پہنچ گئے اگرچہ دونوں حکومتوں کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو 10 ماہ سے زہادہ نہیں ہوئے ہیں تاہم ان کے درمیان تعلقات کی وسعت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ، یہ واضح نہیں ہے کہ فلسطینیوں کے خون بدلے صہیونیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والے متحدہ عرب امارات کے کہاں تک جانے کا اراد رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے پر 15 ستمبر 2020کو ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے وائٹ ہاؤس میں صیہونی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ پر دستخط کیے جس کے بعد متحدہ عرب امارات کی حکومت نے گذشتہ 10 ماہ کے دوران صیہونیوں کو بہت ساری خدمات فراہم کیں جو عرب اور غیر عرب ممالک میں غیر معمولی ہیں،جبکہ علاقائی امور کے ماہرین کے مطابق ان اقدامات نے متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں کو عملی طور پر صہیونیوں کے غلاموں میں تبدیل کردیا ہے۔
متحدہ عرب امارات کی لیکس ویب سائٹ ، جو متحدہ عرب امارات کے اندر سے پردے کے پیچھے کی خبروں کو منظر عام پر لانے کے لئے مشہور ہے ، نے گذشتہ جمعہ کو اپنی تازہ رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ پچھلے تین ماہ کے دوران تقریبا 5000 اسرائیلیوں نے متحدہ عرب امارات کی شہریت حاصل کی ہے، ان ذرائع کے مطابق انہیں ایسی دستاویزات معلوم ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلیوں نے متحدہ عرب امارات ، خاص طور پر دبئی اور ابو ظہبی میں سرمایہ کاری کے بارے میں اس مسئلے (شہریت کے قوانین میں تبدیلی) کا خیرمقدم کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے حکام سرمایہ کاروں اور کاروباریوں کو ان کی اصل شہریت ترک کیے بغیر متحدہ عرب امارات کی شہریت حاصل کرنے کی اجازت دیتے ہیں جو صیہونیوں کو شہریت دینے اور عرب ممالک کا سفر کرنے کے لئے انہیں گرین لائٹ فراہم کرنے کے لئے ایک اچھا پلیٹ فارم ہے جس کے تحت صیہونی خلیج فارس اور دیگر عربوں سے بغیر ویزا حاصل کیے یہاں آسکتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے لیکس کے مطابق شہریت دینے کے لئے شرائط کو کم کرنے کے لئے متحدہ عرب امارات کے حکام کے اقدام نے ملک کے سوشل میڈیا پر ایک بہت بڑا تنازعہ کھڑا کردیا ہے ، اور صارفین نے اسرائیلیوں کے ذریعہ خلیج فارس میں جائیداد خریدنے کے لئے متحدہ عرب امارات کی شہریت کی پامالی کرنے کے بارے میں متنبہ کیا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے شہریت قانون میں ہونے والی تبدیلیوں پر متحدہ عرب امارات کی حزب اختلاف اور سماجی کارکنوں نے یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات کے حکومت کے اپنے میڈیا پلیٹ فارم میں بھی انھیں بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیاہےکیونکہ وہ اسے ملک کے آبادیاتی تناسب کے لئے خطرہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اماراتی صارفین نے لکھا ہے کہ غیر ملکیوں خصوصا اسرائیلیوں کو وسیع پیمانے پر شہریت دینے کا عمل متحدہ عرب امارات میں خفیہ طور پر انجام دیا جارہا ہے جبکہ اس ملک کے اصل باشندے بے گھر ، قید یا ان کی شہریت چھینی جارہی ہے۔