سچ خبریں:دمشق کے ساتھ دشمنی کا راستہ اختیار کرنے والے عرب ممالک نے یہ سمجھنے کے بعد کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکے ہیں، دمشق کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا راستہ اختیار کیا۔
2010 کے اواخر میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین، مصر، اردن اور تیونس جیسے کئی عرب ممالک نے امریکہ ، برطانیہ، فرانس اور ترکی جیسے ممالک کے ساتھ مل کر شام میں خانہ جنگی شروع کی، انہوں نے ایک ایسا بحران شروع کیا جس کا اصل ہدف مزاحمتی محاذ کو نشانہ بنانا تھا، اس بحران کے دوران شامی اپوزیشن کی بھرپور حمایت کی گئی،تاہم یہ کوششیں بالکل بھی کامیاب نہ ہوئیں اور بتدریج شامی حکومت کے خاتمے کے لیے بیتاب بعض عرب ممالک نے دمشق کے ساتھ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔
اس دوران بعض عرب ممالک نے شام کے ساتھ اپنے معمول کے تعلقات کو جاری رکھا، شام کے بحران کے آغاز میں ہی شام کو 18 کی رضامندی، تین کی مخالفت اور دو عرب ممالک کی عدم شرکت پر عرب لیگ سے نکال دیا گیا تھا، لیکن اب ہم دمشق کی عرب لیگ میں واپسی کی باتیں سننے کو ملتی ہیں حالانکہ سعودی عرب اور قطر سمیت کچھ ممالک شام کی واپسی کو روک رہے ہیں۔
بہرحال عرب ممالک کا دمشق کی طرف رخ شام میں قائم سیاسی عسکری اسٹیبلشمنٹ کا تختہ الٹنے کے منصوبوں کی ناکامی کی علامت ہے۔ شام کی عرب لیگ میں واپسی اور دمشق کے ساتھ تعلقات کے قیام کے لیے بعض عرب ممالک کی سخت مزاحمت کے باوجود یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری نہیں رہے گا اور یہ عرب ممالک دمشق کو اپنانے کے راستے پر چلیں گے۔