سچ خبریں: صیہونی حکومت کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کا مسئلہ ان دنوں خطے حتیٰ دنیا کی پہلی خبر بن چکا ہے،بہت سی خبریں مذاکرات کی پیشرفت اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے جلد معمول پر آنے کی نشاندہی کرتی ہیں۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے فاکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ سعودی عرب اور اسرائیل روز بروز تعلقات قائم کرنے کے قریب ہو رہے ہیں، اسی موقف کو چند دن بعد اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اسی امریکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے دہرایا، اس صورتحال میں امریکہ میں بحرین کے سفیر عبداللہ بن راشد نے اس معاملے کو ناگزیر سمجھتے ہوئے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے قیام میں صرف وقت کے انتظار کی بات کی۔
صیہونی وزیر سیاحت اور وزیر مواصلات کا گزشتہ دنوں سعودی عرب کا پہلا دورہ ان قیاس آرائیوں کی تصدیق کی ایک مضبوط وجہ سمجھا جاتا ہے،اس سب کے باوجود اس تجزیے کے لکھنے کا خیال ہے کہ ان رشتوں کی راہ میں حائل رکاوٹیں اس سے کہیں زیادہ ہیں جن کو نظر انداز یا کم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ رکاوٹیں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کے عمل کو ناکام بنا سکتی ہیں، مندرجہ ذیل صورتوں میں زیر بحث ہیں:
1۔ سعودی عرب مکمل طور پر اسلامی ملک ہے؛ اس کی تقریباً سو فیصد آبادی مسلمان ہے،اس کے علاوہ اس مسلم آبادی کا ایک بڑا حصہ مذہبی اور روایتی رجحانات کا حامل ہے،اس حقیقت نے انہیں اسلامی دنیا میں یہودیوں کے قبضے اور فلسطین میں اسلامی مقدس مقامات پر قبضے کے حوالے سے حساس بنا دیا ہے۔
سعودی عرب کا فلسطین کی حمایت کا ایک طویل اور تاریخی ریکارڈ ہے اور اسرائیل کے ساتھ جنگ میں اس نے بہت زیادہ مالی اور انسانی قیمتیں برداشت کی ہیں نیز سینکڑوں شہید اور زخمی دیے ہیں،سعودی عرب میں ہونے والے تمام سروے اس ملک کے عوام کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی وسیع پیمانے پر مخالفت کی تصدیق کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی صیہونی دوستی کروانا مشکل ہے؟امریکہ کا کہنا ہے؟
ایک حالیہ سروے (جس کے نتائج اکانومسٹ میں شائع ہوئے) میں صرف دو فیصد سعودی نوجوانوں نے ایسے تعلقات کی حمایت کی جبکہ متحدہ عرب امارات میں یہ تعداد 75 فیصد کے قریب تھی لہٰذا سعودی عرب کے لیے صیہونیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے کسی بھی جمہوری عمل میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ اس کا تصور جبر، زبردستی اور آمرانہ عمل مسلط کر کے ہی کیا جا سکتا ہے،یہ سعودی عرب میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر وسیع پیمانے پر عدم اطمینان کا باعث بھی بن سکتا ہے جو نہ صرف نوجوانوں اور عام لوگوں کو بلکہ علمائے کرام یہاں تک کہ فوج اور سکیورٹی فورسز کو بھی متاثر کر سکتا ہے،متذکرہ حقیقت، اسرائیل کے ساتھ مصر کے غیر جمہوری اور غیر مقبول امن کی طرح، اس ملک کے رہنماؤں اور خاص طور پر اس نظریے کے حامل حکام کے امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
2. سعودی عرب میں رائے عامہ کے علاوہ فلسطین میں رائے عامہ بھی اس معاملے کے سخت خلاف ہے، فلسطین میں سعودی سفیر نائف بن بندر کے مقبوضہ علاقوں کے حالیہ دورے کے دوران مسجد اقصیٰ کے دورے کی منسوخی اس دعوے کی تصدیق کرتی ہے،یہ فیصلہ غالباً فلسطینی نمازیوں کے منفی اور غصے کے ردعمل کی وجہ سے کیا گیا،اس طرح کا ردعمل حال ہی میں ایک سعودی بلاگر محمد السعود کے سامنے بھی آیا ہے جو صیہونیوں کے ساتھ تعلقاتمعمول پر لانے کی حمایت کرتا ہے۔ جب اس نے مسجد اقصیٰ کا دورہ کیا تو لوگوں نے اس کے خلاف نعرے لگائے اور اسے مسجد سے باہر نکال دیا۔
نارملائزیشن کی مخالفت صرف سعودی عرب اور فلسطین تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں تمام اسلامی ممالک شامل ہیں، ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات کی نوجوان نسل کو چھوڑ کر۔ معروف الموشر العربی انسٹی ٹیوٹ کے سروے کے مطابق تمام عرب ممالک میں لوگوں کی اکثریت صیہونیوں کے تعلقات کی بحالی کے خلاف ہے، اس مخالفت میں وہ ممالک شامل ہیں جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہیں، جیسے مصر، اردن اور مراکش،درحقیقت اسلامی دنیا میں اب تک جتنی بھی نارملائزیشن ہوئی ہیں وہ غیر جمہوری اور عوام کی رائے کے خلاف ہیں اور اس لحاظ سے یہ ایک طرح کی آمریت ہے اور اس میں عوامی اعتبار کا فقدان ہے۔
3۔ سعودی عرب، فلسطین اور دیگر اسلامی ممالک کے عوام کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی مخالفت کوئی انوکھی بات نہیں ہے، یہ خطے میں صیہونی جارحیت کے آغاز سے ہمیشہ موجود رہی ہے، لیکن نیتن یاہو کی مذہبی حکومت کی انتہا پسندی اور زیادتیوں کی وجہ سے اس بار غیر معمولی طور پر مغربی معاشروں یہاں تک کہ اسرائیل کی یہودی برادری میں بھی اس معاملے کی بڑے پیمانے پر مخالفت کی جا رہی ہے۔ وہ اس حکومت کو سمجھوتے کے لیے ضروری اہلیت اور کافی صلاحیت کا فقدان کا حامل سمجھتے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ تعلقات کی بحالی اس انتہا پسند حکومت اور اس کی غیر جمہوری اور انسانی حقوق مخالف پالیسیوں کو تقویت دے گی،یہی وجہ ہے مغربی حکومتیں سنجیدگی سے اس معاملے کی حمایت نہیں کرتی ہیں،کچھ تبصروں کے باوجود اس عمل کی حمایت میں امریکی حکومت کی سنجیدگی بھی مشکوک ہے،کم از کم موجودہ امریکی حکومت اس پر متفق نہیں ہے۔
4. اسرائیل کی طرف بڑھنے کے سعودی اقدام کی فلسطینیوں کی مخالفت کوئی جذباتی اور سطحی مخالفت نہیں ہے، جیسا کہ تاریخ شاہد ہے، بلکہ اس کی جڑیں بعض تاریخی حقائق میں پیوست ہیں، یہ تمام باتیں اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ امن قائم کرنے سے نہ صرف کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور نہ فلسطینیوں کی مدد ہوگی بلکہ اس کا فلسطین کی آزادی اور جدوجہد پر بہت منفی اثر پڑ گا اور اسرائیل کو ان کے حقوق غصب کرنے نیز اس سرزمین کو مکمل طور پر یہودی بنانے کی کھلی چھوٹ ملے گی،اس سچائی کو چھپانے کے لیے عرب ممالک ہمیشہ فلسطینیوں کو رعایتیں دینے کی بات کرتے ہیں اور ان کے حقوق کے حصول کے وعدے کرتے ہیں جبکہ یہ سب جھوٹے اور فریب دینے والے وعدے ہیں جن کا خطے کی اقوام کو پرسکون کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے جس سے ان کی مخالفت کی شدت میں کوئی کمی نہیں آتی،اس کا تجربہ مصر سے لے کر یو اے ای تک اسرائیل کے ساتھ عرب امن کے تمام سابقہ معاملات میں ہوا ہے۔
انور سادات نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہوں نے اسرائیل کو فلسطینیوں کے حقوق تسلیم کرنے پر مجبور کیا اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مغربی کنارے کی یہودیت کو روکنے سے مشروط کیا لیکن اس سے نہ صرف یہ کہ فلسطینیوں کی مدد نہیں ہوئی بلکہ فلسطینیوں کے حقوق کو پائمال کرنے کی مقدار میں اضافہ بھی ہوا۔
5۔ سعودی عرب عالم اسلام میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے،یہ ملک اسلام کی اصل ہے اور مقدس ترین اسلامی مقامات مکہ اور مدینہ اسی ملک میں واقع ہیں،ان مقامات کی اہمیت اس قدر ہے کہ سعودی عرب کے بادشاہ ان مراکز کی خدمت کو اپنا اہم ترین لقب سمجھتے ہیں (خادم الحرمین الشریفین)، ہر سال پوری مسلم دنیا سے لاکھوں لوگ حج کرنے کے لیے اس ملک جاتے ہیں،سعودی عرب میں اسلامی تعاون تنظیم کا صدر دفتر ہے اور یہ ملک اس اسلامی تنظیم کا سب سے اہم حامی ہے جو بیت المقدس کی آزادی کے لیے قائم کی گئی تھی، اس کے علاوہ اس ملک کے محل وقوع، حجم اور دولت نے عالم اسلام میں خصوصی اور مرکزی کردار ادا کیا ہے، سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے جبکہ اسلامی معاشروں کی اکثریت اس کے خلاف ہے اور اسلامی ممالک کی اکثریت (تقریباً تیس ممالک) بھی اس کے ساتھ تعلقات نہیں رکھتی۔
صیہونیوں کے ساتھ تعقات بحال کرنے سے اسلامی دنیا میں سعودی عرب کی پوزیشن میں کمی آئے گی، اسے غیر معمولی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا،سعودی عرب کے بادشاہ اپنے آپ کو دو مقدس مقامات کے متولی کیسے کہہ سکتے ہیں جب کہ وہ تیسرے مقدس مقام مسجد اقصیٰ کے ساتھ غداری کی کھائی میں گر چکے ہیں اور ایسی حکومت سے دوستی کر سکتے ہیں جس نے فلسطینیوں کے حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزی کی ہے،جو مقدس اسلامی مقامات اور مسجد اقصیٰ کو تباہ کرنے اور اس کے اوپر یہودی معبد کی تعمیر کا ارادہ رکھتی ہے، اگر ماضی میں یہ حقیقت ناقابل تردید تھی تو آج اس کو چھپایا نہیں جا سکتا اس لیے کہ انتہا پسند یہودیوں حتیٰ اسرائیلی حکومت کے ارکان کی اس مسجد پر جارحیت کی دردناک تصاویر ہر روز عالم اسلام کے تمام حصوں میں نشر کی جاتی ہیں۔
6۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا عرب امن منصوبے کے منافی ہے، جسے 2002 میں بیروت میں عرب لیگ کے اجلاس میں تمام عرب حکومتوں نے منظور کیا تھا، اس منصوبے کے مطابق عرب ممالک اسرائیل کو اس وقت تسلیم کریں گے جب یہ حکومت 1967 میں قبضے والے علاقوں (مغربی کنارے، غزہ اور گولان کی پہاڑیوں) سے نکل جائے گی اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی اجازت دے گی جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہوگا۔
7۔ سعودی عرب اور اسرائیل کی قربت میں یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب فلسطین اسرائیل کی جابرانہ اور جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے اپنی تاریخ کے بدترین حالات میں سے گذر رہا ہے، غزہ کی پٹی ایک دہائی سے زائد عرصے سے مکمل محاصرے میں ہے اور اس کے لوگ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہر طرح سے سخت مشکلات کا شکار ہیں۔
8۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب اسرائیل میں آج ایک ایسی حکومت کام کر رہی ہے جس کے پاس تعلقات اور پہچان کی ذرہ برابر بھی اہلیت نہیں ہے،تحقیق کے مطابق یہ حکومت اسرائیل کی پوری تاریخ میں سب سے زیادہ عرب دشمن، اسلام دشمن اور انتہاپسند حکومت ہے جو فلسطینیوں کو کوئی حقوق نہیں دیتی۔
9. موجودہ اسرائیلی حکومت کی پالیسیاں اس قدر ناقابل قبول اور مسترد ہیں کہ اس نے مغربی حکومتوں حتیٰ کہ اسرائیل کے یہودیوں کو بھی غصہ دلایا ہے، اسرائیل میں نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی مظاہروں کو نو ماہ ہو چکے ہیں،یہ حکومت اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ فوجی گروپوں کی شکل میں اس حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر سروس سے دستبردار ہو رہے ہیں،مغربی سیاستدان نیتن یاہو یا ان کے وزراء سے ملنے کو تیار نہیں ہیں۔
10۔ اسرائیل صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے، اس مسئلے کی جہتوں پر توجہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل پورے خطے کے لیے خطرہ ہے،فلسطین پر مکمل قبضے کے بعد اسرائیل نے لبنان، شام، اردن، مصر حتیٰ کہ سعودی عرب سمیت اپنے تمام ہمسایہ ممالک کی سرزمین کے کچھ حصوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے،سعودی عرب کے تیران اور صنافیر جزیروں پر کئی سالوں تک اسرائیل کا قبضہ رہا ہے، یہاں سے جانے کے باوجود وہ اس کے بارے میں حساس ہیں اور طاقت کا استعمال کر رہے ہیں۔
11۔ اسرائیل کے ساتھ امن کو فروغ دینے کے لیے ایک عام دلیل، جسے صیہونی میڈیا میں بہت زیادہ فروغ دیا جاتا ہے، خطے میں اس امن کے مثبت اثرات کے بارے میں بات پھیلانا ہے،صیہونی میڈیا اس سلسلہ میں ایسے سبز باغ دکھاتا ہے جیسے اس معاہدے کے بعد خطے کا جہنم اچانک ایک مثالی جنت میں تبدیل ہو جائے گا۔
12. مندرجہ بالا رکاوٹوں کے علاوہ، اسرائیل کے ساتھ امن سعودی عرب کے مرحوم اور محبوب بادشاہ شاہ فیصل کی عظیم میراث کو خطرے میں ڈال دے گا، فیصل پوری مسلم دنیا میں سب سے زیادہ مقبول سعودی سیاستدان رہے ہیں جنہوں نے فلسطینی عوام اور دیگر مسلم اقوام کے حقوق کے دفاع میں اپنی فیصلہ کن اور ذمہ دارانہ پالیسیوں اور اسلامی اور عرب دنیا میں اپنی موثر قیادت سے آل سعود خاندان کو بہت سا وقار عطا کیا۔
13. ایران اور سعودی عرب کے درمیان مفاہمت سے قبل اسرائیل سے قربت کا واضح جواز موجود تھا،سعودی سیاستدان ایران کے خطرے اور اس کی پالیسیوں کو اسرائیل کے قریب ہونے اور مشترکہ خطرے یعنی ایران سے نمٹنے کے لیے اس ملک کے ساتھ اتحاد کی وجہ سمجھ سکتے ہیں جو اب نہیں رہا۔
مزید پڑھیں: کیا امریکہ سعودی صیہونی دوستی کروانے سے مایوس ہو چکا ہے؟
اب تک جو بیان ہوا ہے وہ ان رکاوٹوں کا حصہ ہے جو سعودی فیصلہ سازوں کے لیے اسرائیل سے قریب ہونے کے فیصلے کے سامنے موجود ہیں اس کے علاوہ یہ اہم اور بے شمار رکاوٹیں ہر عقلمند فیصلہ ساز کو اس میدان میں مہم جوئی سے متنبہ کرتی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے اندر اور اس سے باہر اسلامی دنیا میں رائے عامہ کا موقف بہت فیصلہ کن ہے،اگر عالم اسلام کی خاموش اکثریت بالخصوص علمائے کرام، سائنسدان اور دانشور اور مذہبی حکام جو اس تعلق کے خلاف ہیں، خاموشی توڑ دیں اور اس اقدام کی مخالفت کا اظہار کریں تو سعودی کبھی صیہنیوں کے قریب نہیں جا سکتے۔