?️
سچ خبریں: الجزیرہ نیٹ ورک کی ایک رپورٹ میں حماس اور امریکہ کے درمیان غزہ میں قید امریکی-اسرائیلی شہری "عیدان الیکسانڈر” کی رہائی کے معاہدے کا جائزہ لیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس معاہدے نے صہیونی ریاست کو حیرت میں ڈال دیا اور اسے کمزور پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔ یہ معاہدہ، جو مقبوضہ ریاست کے بغیر کسی رابطے کے واشنگٹن اور حماس کے درمیان براہ راست مذاکرات کا نتیجہ ہے، مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا غیر سرکاری گروپوں کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا تجربہ ہے۔ یہ تجربہ یمن کے انصاراللہ تحریک کے ساتھ پچھلے معاہدے سے ملتا جلتا ہے، جو امریکہ کے اسٹریٹجک مفادات کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔
فلسطین انفارمیشن سنٹر نے بھی اس مضمون کو شائع کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دونوں معاملات میں صہیونی ریاست کے مفادات کو عملاً نظرانداز کیا گیا ہے۔ یمنیوں کے ساتھ معاہدے میں مقبوضہ علاقوں پر میزائیل حملوں کے خاتمے یا اسرائیلی جہازوں کی بحری نقل و حرکت کی آزادی پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ اسی طرح، حماس کے ساتھ معاہدے میں دیگر اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا ذکر تک نہیں کیا گیا، جبکہ غزہ کو انسان دوست امداد فراہم کرنا اس معاہدے کا حصہ ہے۔
یہ واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکہ نے خطے میں اپنے پرانے اتحادی کے مفادات پر اپنے مفادات کو ترجیح دی ہے۔ اس سے پہلے بھی اس رجحان کی علامات نظر آئی تھیں، جیسے واشنگٹن کا تہران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز، شام کے معاملے میں امریکی موقف میں تبدیلی، اور ڈونلڈ ٹرمپ کا صہیونی ریاست کی بجائے شام کے شمال میں ترکی کے کردار کو فروغ دینے کی خواہش۔
تل ابیو کو یہ غلط فہمی تھی کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی خارجہ پالیسی میں اس کے مفادات امریکہ کے مفادات کے برابر ہوں گے۔ لیکن اب اسے اس حقیقت کا سامنا ہے کہ واشنگٹن کے مفادات کو ترجیح دی جائے گی، چاہے وہ اس ریاست کی خواہشات کے بالکل برعکس ہی کیوں نہ ہوں۔
اسرائیلی سیاسی حلقوں کے نزدیک یہ معاہدہ نہ صرف ایک ناکامی ہے، بلکہ ایک سفارتی تباہی بھی ہے۔ اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ نے اس معاہدے کو صاف الفاظ میں یہی کہا ہے۔ یہ دوسری بار ہے جب امریکہ نے حماس کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں۔ پہلی بار، امریکی خصوصی ایلچی برائے قیدی معاملات ایڈم بہلر کی ثالثی میں ہوئے تھے، جس پر صہیونی ریاست نے سخت احتجاج کیا تھا اور بالآخر بہلر کو استعفیٰ دینا پڑا۔ لیکن اس بار، مذاکرات مؤثر طریقے سے اور اس ریاست کو اطلاع دیے بغیر کئے گئے، اور ان کا نتیجہ بھی نکلا۔
رپورٹ میں اس معاہدے کے اہم اثرات درج ذیل نکات میں بیان کیے گئے ہیں:
الف: غزہ میں سیاسی اور فوجی جمود کا خاتمہ۔ صہیونی ریاست نے اب تک جنگ بندی یا جنگ کے خاتمے کے لیے کسی بھی مذاکرے سے انکار کرتے ہوئے صرف اپنے تجویز کردہ منصوبے کو ہی قابل عمل قرار دیا تھا۔ لیکن حماس کے ساتھ یہ معاہدہ نئے مذاکرات کی راہ ہموار کر سکتا ہے، جو تل ابیو کی شرائط سے ہٹ کر ہوں گے اور عملی طور پر فوجی کارروائیوں کو روک دیں گے۔
ب: صہیونی ریاست کے دباؤ کے ہتھکنڈوں (ناکہ بندی اور بھوک) کا خاتمہ۔ مقبوضہ ریاست نے "منظم بھوک” کی پالیسی اپنا کر حماس کو محدود شرائط پر جنگ بندی اور کچھ قیدیوں کی رہائی پر مجبور کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس معاہدے نے ان ہتھکنڈوں کو بے اثر کر دیا۔ مارچ کے آغاز سے، اس ریاست نے خوراک اور ادویات کی امداد روک کر ایک ایسے معاہدے کی کوشش کی تھی جس میں صرف آدھے قیدیوں کی رہائی اور 40 دن کی جنگ بندی شامل ہو، جبکہ جنگ بندی کے عہد یا غزہ سے فوجی انخلا کا کوئی ذکر نہ ہو۔ تاہم، امریکہ اور حماس کے مذاکرات نے بغیر کسی دباؤ کے ایک قیدی کی رہائی ممکن بنا دی۔
ج: صہیونی حکومت کی اعلانیہ اور عملی پالیسیوں پر سوالیہ نشان۔ نیتن یاہو حکومت، جس نے فوجی کارروائیوں اور غزہ کی ناکہ بندی کو اپنے مقاصد کا واحد ذریعہ بتایا تھا، اب ایک واضح تضاد کا شکار ہے۔ کئی ماہ کی کوششوں کے باوجود، ناکہ بندی کے ذریعے حماس کو مجبور کرنے کی کوششیں ناکام رہی ہیں، جبکہ براہ راست اور غیر متشدد مذاکرات کامیاب ہو گئے۔
ان تبدیلیوں کا اثر صرف خارجہ پالیسی تک محدود نہیں ہوگا، بلکہ یہ صہیونی ریاست کے اندرونی معاملات کو بھی متاثر کرے گا۔ حکومت کے اندر پھوٹ اور سماجی بے اطمینانی، خاص طور پر ان پالیسیوں کے خلاف جو اسرائیل کو دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی اور بے رحم تباہی کا ذمہ دار بنا رہی ہیں، مزید بڑھے گی۔ فلسطینی شہریوں کو بھوک اور قتل عام کی پالیسی کو اخلاقی ظاہر کرنے کی عالمی ردعمل نے بین الاقوامی سطح پر اس ریاست کی تصویر خراب کی ہے، جو امریکہ کے امن، ترقی اور خطے کی استحکام کے دعوؤں سے متصادم ہے۔
ان حالات میں، نیتن یاہو کو ایک اور بڑے چیلنج کا سامنا ہے: ان کے پاس ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کوئی دباؤ کا ہتھیار نہیں ہے۔ اپنی پچھلی وزارت عظمیٰ کے دوران، جب وہ کلنٹن، اوباما یا بائیڈن جیسے ڈیموکریٹک صدور سے الجھتے تھے، تو وہ ریپبلکن کانگریس پر بھروسہ کرتے تھے۔ لیکن اب وہ ایک ایسے صدر کے سامنے ہیں جو ان کے اپنے پارٹی سے ہیں اور ان سے حمایت کی توقع رکھتے ہیں۔
نیتن یاہو کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ امریکہ کو اسرائیل کے ابتدائی تجویز پر واپس لے جانے پر قائل کر سکیں، جس میں پانچ زندہ قیدیوں کی رہائی کے بدلے جنگ بندی اور غزہ کے سیاسی مستقبل کے بارے میں مذاکرات کا آغاز شامل ہے۔ اس میں کامیابی عارضی طور پر ان کی حکومت کو بچا سکتی ہے، بغیر فوجی کارروائیوں کو بڑھانے کے، جس کی حمایت حکومتی اتحاد میں انتہائی دائیں بازو اور مذہبی جماعتیں کر رہی ہیں۔
ورنہ، ان کے سامنے دو مشکل آپشنز ہوں گے: یا تو جنگ بند کر کے اپنی حکومت کے ٹوٹنے کو قبول کریں، یا جنگ جاری رکھ کر ٹرمپ کے ساتھ براہ راست تصادم میں چلے جائیں۔
Short Link
Copied
مشہور خبریں۔
شہباز شریف نے پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی
?️ 23 نومبر 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی کے
نومبر
جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کا خاتمہ اور اسرائیل کی موجودہ صورتحال
?️ 27 فروری 2023سچ خبریں:جنوبی افریقہ میں نسل پرستی 1992 میں ایک ریفرنڈم کے بعد
فروری
غزہ میں حماس کی مہلک کمین گاہوں کی نئی حکمت عملی، اسرائیلی فوج پر کاری ضربیں
?️ 30 اپریل 2025 سچ خبریں:القسام بٹالین نے غزہ میں اسرائیلی فوج کے خلاف مہلک
اپریل
اسرائیل ایرانی میزائلوں کے ملبے تلے / ہلاکتوں کی چونکا دینے والی تعداد
?️ 15 جون 2025سچ خبریں: صہیونی میڈیا نے بتایا ہے کہ ایران کے میزائل حملوں میں
جون
جنگ بندی کی تجویز کے بارے میں لبنانی حکام کے شرایط
?️ 21 نومبر 2024سچ خبریں: امریکی ایلچی آموس ہاکسٹین کے بیروت کے دورے اور جنگ
نومبر
اردن میں صیہونی حکومت کے سفارت خانے کے سامنے احتجاجی ریلی
?️ 12 مئی 2022سچ خبریں: اردن کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے گذشتہ شب
مئی
مغرب قرآن جلانے کی حمایت کیوں کرتا ہے؟
?️ 21 اگست 2023سچ خبریں:سویڈش حکومت نے اسلامی مقدس مقامات کے خلاف ایک اور مجرمانہ
اگست
عائشہ خان کے بچوں پر الزام تراشی غلط ہے، بشریٰ انصاری
?️ 24 جون 2025کراچی: (سچ خبریں) سینئر اداکارہ بشریٰ انصاری نے کچھ دن قبل گھر
جون