سچ خبریں: تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ داعش اور صیہونیت "حکومت” قائم کرنے کے اپنے طریقہ کار اور جرائم کی نوعیت میں ایک دوسرے سے بہت ملتے جلتے ہیں۔
فلسطینی عوام کے خلاف قابض حکومت کے جرائم کے بارے میں مغرب اور امریکہ کا دوہرا معیار نیز ان تمام جارحیتوں کے بارے میں جو امریکی مغربی محور اور اس کے اتحادی دنیا کی اقوام کے خلاف کرتے ہیں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس محور کی نوآبادیاتی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے، اس لیے فلسطینیوں کی مزاحمت کے خلاف مغربیوں اور امریکیوں کا مضبوط موقف دیکھ کر کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ مزحمت فلسطینی عوام کے حقوق ،ان کی جانوں اور سلامتی کا جائز طور پر دفاع کر رہی ہے۔
صیہونیوں کے جرائم کے لیے امریکہ اور مغرب کی مکمل حمایت
غزہ میں صہیونیوں کی بربریت اور فاسفورس بموں سمیت ممنوعہ ہتھیاروں سے فلسطینیوں کی نسل کشی، نوزائیدہ بچوں کا قتل عام، غزہ کے اسپتال اور محکمہ صحت کی تباہی اور فلسطینیوں کی نسل کشی نیز غزہ کے خلاف جامع اور غیر انسانی محاصرہ کے خلاف مغربی امریکی محور کی خاموشی حیران کن نہیں ہے،مسئلہ صرف اس محور کی خاموشی کا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس مغربی اور امریکی تمام فوجی، سیاسی حتیٰ میڈیا کی سطح پر بھی صہیونی مجرموں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور اس سلسلے میں واشنگٹن کی جانب سے اپنے حملہ آوروں کو بحیرہ روم میں بھیجنے کا اقدام فلسطینیوں کو مارنے میں قابضین کی مدد کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونیوں اور داعش کی مشترکہ خصوصیت
Eutelsat سیٹلائٹ کی ذمہ دار فرانسیسی کمپنی کی جانب سے غزہ کی پٹی میں قابض حکومت کے جرائم کو منظر عام پر لانے والے فلسطینی مزاحمتی تحریک سے وابستہ الاقصیٰ چینل کی نشریات کو روکنے کے لیے اٹھایا گیا اقدام فلسطینی عوام کے خلاف قبضے کی وحشیانہ جارحیت کی حمایت مغرب کی ایک اور واضح کارروائی ہے،ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہی مغربی ممالک جو انسانی حقوق اور آزادی بیان کے جھوٹے دعوے کے ساتھ دوسرے ممالک کے معاملات میں کسی بھی قسم کی تباہ کن مداخلت کو اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں جبکہ انہیں ممالک منتظمین ایسے کسی بھی اجتماع اور اقدام کو دباتے ہیں جس کا مقصد غزہ میں نہتے فلسطینی بچوں اورعام شہریوں حمایت کرنا ہو۔
حملہ آوروں کی جارحیت کو جائز قرار دینے کے لیے مغربی امریکی مہم
لہٰذا اس سلسلہ میں مغرب اور امریکہ کا نیا اور حیران کن نہیں ہے، لیکن فلسطینی مزاحمت اور غاصب حکومت کے درمیان موجودہ جنگ میں ان کے موقف میں نیا نکتہ یہ ہے کہ غاصب صیہونیوں کو بے قصور دکھانے کے لیے ایک بڑی میڈیا مہم چلائی گئی ہے لیکن یہ جھوٹ بہت جلد سامنے آگیا انہوں نے فلسطینی مجاہدین کو دہشت گرد اور داعشی کہا جبکہ یہ اصطلاح قابضین کے لیے زیادہ مناسب تھی۔
اس سلسلے میں گزشتہ ہفتے کے دوران مغربی اور امریکی میڈیا نے امریکی صدر کی حمایت کے ساتھ قابض حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے جھوٹے دعووں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی جن میں انہوں نے فلسطینی مجاہدین کو داعشی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اسرائیلی بچوں کو قتل کر رہے ہیں اور ان کے سر کاٹ رہے ہیں۔ لیکن اس جھوٹ بھی فوری طور پر بے نقاب ہو گیا اور یہ واضح ہو گیا کہ صیہونیوں اور نیتن یاہو کی طرف سے اسرائیلی بچوں کو مزاحمت کاروں کے ہاتھوں قتل کرنے کے بارے میں شائع کی گئی تصاویر جعلی تھیں۔
مزاحمت کے خلاف صیہونیوں کے جھوٹ کا بے نقاب ہونا
واشنگٹن پوسٹ نے وائٹ ہاؤس کے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ نہ تو بائیڈن اور نہ ہی کسی دوسرے امریکی اہلکار نے فلسطینیوں کے ہاتھوں اسرائیلی بچوں کی ہلاکت کے بارے میں کوئی رپورٹ یا دستاوز پیش کی بلکہ اس سلسلہ میں بائیڈن کے تمام بیانات نیتن یاہو کے بتائے ہوئے تھے،اس طرح کے دعوؤں کے جھوٹے ہونے کی تصدیق عبرانی میڈیا نے بھی کی۔
اس حوالے سے اسرائیلی ویب سائٹ گرے زون نے ایک تحقیق کے نتائج شائع کرتے ہوئے اس جھوٹ کا پردہ فاش کیا اور اعلان کیا کہ یہ افواہ پھیلانے والا شخص ڈیوڈ بن زیون ایک صیہونی ہے جو ایک انتہا پسند اور شیمرون علاقائی کونسل کا رہنما ہے، جس میں مغربی کنارے میں 35 صیہونی بستیاں شامل ہیں،وہ اس سے قبل مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف کئی اشتعال انگیز دعوے شائع کرچکا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ صہیونیوں اور امریکیوں کے اس بڑے جھوٹ کے بے نقاب ہونے کے بعد انسانی حقوق کے بہت سے حلقوں کے ذہنوں میں جو اہم سوال چھایا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ واقعی فلسطینیوں اور غاصبوں کے درمیان جنگ میں یا عمومی طور پر اس جنگ میں جس کا محور مغربی امریکی محور اور ان کے اتحادیوں کے ساتھ مختلف فریق رہے ہیں، کس نے واقعی داعش کی منطق سے کام لیا؟
مغرب والوں نے جنگ کے اصول بنائے ہیں جو درج ذیل ہیں،یقیناً یہ قواعد صرف کاغذوں پر ہیں اور عملی طور پر یہ بالکل مختلف ہیں اس لیے کہ وہ خود ان قواعد پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔
– ایک منصفانہ جنگ ایک منصفانہ مقصد کی خاطر کی جانے والی جنگ ہے۔
– جنگ کو ایک منصفانہ مقصد کو انجام دینے کی خالص نیت کے ساتھ کیا جانا چاہئے۔
– جنگ آخری حربہ ہونا چاہیے۔
– جنگ اس طرح ہو کہ اس میں فتح کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات اور منافع کے درمیان توازن قائم ہو۔
داعش اور صیہونیت کے مشترکہ نکات
مغربی امریکی صہیونی محور کی طرف سے فلسطین مجاہدین کے لیے دہشت گرد اور داعش جیسے الفاظ کا استعمال صیہونیوں کی اپنی دہشت گردانہ نوعیت اور درندگی کو ظاہر کرنے کا ایک بہانہ ہے جس سے ان کے نظریے اور کارکردگی کا داعش کے تکفیریوں سے موازنہ کیا جاتا ہے۔
– جب دہشت گرد-تکفیری گروہ داعش نے خطے میں اپنی تباہ کن جنگ شروع کی، تو وہ ایک ایسے انتہا پسند نظریے کو فروغ دے رہا تھا جس کا دعویٰ تھا کہ یہی حقیقی اسلام اور اس کا مقصد اسلامی خلافت قائم کرنا ہے۔
– جب صیہونی گروہوں نے فلسطین میں اپنی وحشیانہ جارحیت کا آغاز کیا اور تاریخ کے تمام مجرموں کا سر جکھا دیا جو انہوں نے 1948 میں یوم النقبہ کے بعد سے اس سرزمین کے لوگوں کے خلاف کیے ہیں تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ "وعدہ شدہ سرزمین” اور اس فلسطین کی تلاش میں ہیں جو دو ہزار سال پہلے یہودیوں کا تھا، یہودیوں کو یہاں واپس آنا چاہیے۔
– داعش اور صیہونیت کا اپنی حکومت قائم کرنے کا طریقہ مکمل طور پر ایک دوسرے سے ملتا جلتا ہے،جہاں دونوں نے بچوں کے قتل عام سے لے کر انسانوں کو زندہ جلانے تک انسانیت سوز جرائم میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،درحقیقت انتہائی گھناؤنے غیر انسانی جرائم میں صیہونیوں اور داعش کا گہرا مقابلہ ہے۔
– ان دونوں کے درمیان ایک اور مماثلت یہ ہے کہ صہیونی تحریک نے اپنے قبضے کے عمل کے لیے "وعدہ شدہ سرزمین” بیان کرنے والی جعلی داستانوں کا استعمال کیا جبکہ بنیادی طور پر خود انہیں ان پر یقین نہیں۔
یہ بالکل داعشی منصوبہ ہے جو اسلام اور اسلامی خلافت کے بہانے عرب سرزمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
– حکومت کے قیام اور قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے بچوں کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرنا بھی داعش اور صیہونیت کی مشترکہ خصوصیت ہے۔
یہودی بیانیہ کے مطابق 1938 میں جرمنی میں یہودی بچوں کو پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا اور جب امریکہ اور انگلینڈ نے ان کے فرار ہونے کے لیے اپنی کراسنگ کھولنا چاہی تو جعلی اسرائیلی حکومت کے بانی ڈیوڈ بین گورین نے اجازت نہیں دی۔
انہوں نے کہا کہ یہودیوں کی تمام محفوظ پناہ گاہوں کو جلانے دو اور آدھے یہودی بچوں کے لیے فلسطین جانے سے بہتر ہے کہ وہ جل جائیں،آدھے یہودیوں کا مر جانا اور ان میں سے آدھے فلسطین چلے جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ سب زندہ رہیں اور امریکہ یا انگلستان میں رہیں۔ بچوں کو قربان کرنا داعش کا طریقہ ہے اس تنظیم نے گزشتہ دہائی سے خطے میں اپنے جرائم کے دوران بچوں کو ہر قسم کی دہشت گردانہ کارروائیوں بالخصوص خودکش حملوں کے لیے استعمال کیا ہے۔
مغرب اور امریکہ کی مدد سے داعش پر صیہونیت کی برتری
لیکن ان دونوں فریقوں کے درمیان ایک بڑا فرق، جس کی وجہ سے صیہونیت داعش کے مقابلے میں بہتر حالات میں ہے اور 7 دہائیوں پہلے سے خطے میں اپنے قبضے کو مستحکم کر رہی ہے، قابض حکومت کی بین الاقوامی حمایت ہے، اب تک جعلی اسرائیلی حکومت صرف مغرب اور امریکہ کی لامحدود اور کھلی حمایت کی بدولت عرب سرزمین پر اپنا قبضہ جاری رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔
مزید پڑھیں: حزب اللہ نے لبنان کو صیہونی دشمن اور داعش سے بچایا ہے: جبران باسل
تاریخی فلسطین پر صہیونی قبضے کو جواز فراہم کرنے کے لیے جعلی یہودی بیانیے بنانے میں مغربیوں نے بھی بڑا کردار ادا کیا ہے، اس کے باوجود مختلف امریکی حکومتیں اور مغربی ممالک اپنے آپ کو ہر سطح پر صیہونی حکومت کی حمایت اور اس کے خاتمے کو روکنے کے لیے پوری طرح پرعزم سمجھتے ہیں۔
اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ مغرب والے تشدد کی تعریف میں بھی دوہرا معیار رکھتے ہیں اور اگر یہ تشدد اپنی طرف سے یا صیہونیوں اور ان کے دوسرے اتحادیوں کی طرف سے چاہے کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو اسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے! اس لیے یہ دیکھ کر کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مغربی امریکی محور غزہ کے بچوں کے خلاف صہیونیوں کی بربریت کے سامنے نہ صرف خاموش ہے بلکہ تمام دستیاب آلات اور سہولیات کے ساتھ ان جرائم کی حمایت بھی کرتا ہے۔