سچ خبریں: ایک ممتاز برطانوی قلمکار اور تجزیہ کار نے اپنے ایک کالم میں صیہونی حکومت کے خلاف ایران کے آپریشن کے اہم پیغامات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس آپریشن نے اسرائیل کی اپنی حفاظت میں ناکامی کا ثبوت دیا۔
عربی 21 نیوز ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق ممتاز برطانوی قلمکار اور تجزیہ کار ڈیوڈ ہرسٹ نے صیہونی حکومت کے خلاف ایران کے تاریخی آپریشن کے تجزیے میں ایران کے میزائل حملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے میزائل حملوں نے اسرائیل کی کمزوری کو عیاں کردیا ہے اور یہ ظاہر کیا ہے کہ یہ حکومت اکیلے اپنی حفاظت نہیں سکتی اس لیے کہ ہم نے دیکھا کہ امریکہ اور اردن وغیرہ فورا ایران کے میزائلوں کو روکنے کے لیے اسرائیل کی مدد کو آئے۔
یہ بھی پڑھیں: ایرانی حملے نے صیہونیوں کو کتنا نقصان پہنچایا؟
ہرسٹ نے اس بات پر زور دیا کہ آج اسرائیل میں یہ انتخاب کرنے کی ہمت نہیں ہے کہ وہ ان حملوں کا جواب کیسے دے، خاص طور پر غزہ میں اس مصیبت اور مزاحمتی تحریک کے ہاتھوں ناکامی کے بعد جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ حالیہ ایرانی حملے نے ظاہر کیا کہ اسرائیل کو اپنی حفاظت کے لیے دوسروں کی ضرورت ہے اور وہ ان حملوں کے ردعمل کا انتخاب کرنے کے لیے بھی آزاد نہیں ہے، 6 ماہ سے زائد عرصے کے بعد یہ بات واضح ہے کہ غزہ میں جنگ ٹھیک نہیں چل رہی، آج اسرائیلی زمینی افواج کو فلسطینیوں کی سخت مزاحمت کا سامنا ہے اس لیے کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی اور عوام کے شدید مصائب کے باوجود مجاہدین کے ہتھیار ڈالنے یا شکست کے آثار نہیں دکھاتے۔
اس کالم میں کہا گیا ہے کہ حماس کے حوصلے پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں اور وہ بدترین حالات سے نکلنے میں کامیاب ہو گئی ہیں نیز ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے، اس کے علاوہ غزہ کے لوگ حماس کی حمایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رفح پر اسرائیل کے قبضے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، غزہ کے لوگ اسرائیلی فوج کی طرف سے حماس کی طاقت کے بارے میں پیش کی جانے والی رپورٹس کا مذاق اڑاتے ہیں۔
اس برطانوی قلمکار کے مطابق غزہ میں اسرائیلی جنگ کی شکست کے ساتھ ہی قابض حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی برطرفی کے مطالبات بڑھ گئے ہیں اور حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کرنے کے سلسلہ میں صیہونی حکومت کے پہلے حامی، ریاستہائے متحدہ کے صدر جو بائیڈن کے ساتھ اختلافات کھل کر سامنے آ چکے ہیں نیز نیتن یاہو کے خلاف عالمی رائے عامہ کا بہت دباؤ ہے، اور اسرائیل ان کے دور حکومت میں تباہ ہو چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج اسرائیل کو ایک بار پھر مظلوم کا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس جھوٹ کو برقرار رکھا جا سکے کہ وہ اپنے وجود کے دفاع کے لیے لڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کر کے ایک بڑا جوا رچایا ، امریکہ اس کے عزائم سے واقف تھا اور جانتا تھا کہ اس کا مقصد امریکہ کو ایران کے ساتھ جنگ کی طرف لے جانا ہے، اسی وجہ سے امریکہ نے براہ راست ایرانیوں کو پیغام بھیجا کہ وہ شام میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے میں ملوث نہیں ہے اور اسے اسرائیلی لڑاکا طیاروں کی پرواز کے بعد اس حملے کی اطلاع دی گئی۔
ڈیوڈ ہرسٹ نے مزید کہا کہ اس اسرائیلی حملے کے بعد ایران نے انتظار کیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کیا کرے گی لیکن امریکہ نے انگلینڈ اور فرانس کے ساتھ مل کر اس بیان کے خلاف ویٹو کا حق استعمال کیا جو روس نے ایرانی قونصل خانہ پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کے لیے پیش کیا تھا،اس کے بعد ایران نے اعلان کیا کہ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت ختم ہونے کی صورت میں وہ اسرائیل کے خلاف کارروائی نہیں کرے گا لیکن اس معاملے کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ پھر یکے بعد دیگرے مغربی ممالک نے ایران سے کہا کہ وہ اسرائیل پر حملہ نہ کرے لیکن جہاں تک بائیڈن کا تعلق ہے تو اس نے ایرانیوں کو صرف ایک مشورہ دیا کہ وہ ایسا نہ کریں۔
کالم کے مطابق جب ایرانی حملہ شروع ہوا تو یہ واضح ہو گیا کہ اسے امریکہ، اسرائیل اور عرب خطے کو بہت سے پیغامات بھیجنے کے لیے احتیاط سے ڈیزائن کیا گیا تھا، درحقیقت تہران ایک ایسا ماڈل بنانا چاہتا تھا جو ہمہ گیر جنگ کو ہوا دیے بغیر براہ راست اسرائیل کو نشانہ بنا سکے،ایران اسرائیل کو بتانا چاہتا تھا کہ وہ اس پر براہ راست حملہ کر سکتا ہے اور امریکہ کو یہ بھی بتانا چاہتا تھا کہ ایران خلیج فارس کے علاقے میں ایک طاقت ہے اور آبنائے ہرمز کو کنٹرول کرنے والا فریق ہے۔
ہرسٹ نے واضح کیا کہ اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنانے والے ایرانی میزائلوں میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک پیغام تھا، حملے سے قبل یہ پیغامات ایرانی پاسداران انقلاب کی جانب سے آبنائے ہرمز کے قریب ایک اسرائیلی ارب پتی کی ملکیت والے جہاز کو قبضے میں لے کر مکمل کیے گئے تھے، اس کے بعد بہت سارے ایرانی ڈرون اسرائیل بھیجے گئے اور اسرائیلی میڈیا کے مطابق ایران کے حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے دفاعی نظام کے استعمال پر ایک ارب ڈالر سے زائد خرچ کیے گئے۔
اس برطانوی قلمکار نے اپنا کالم میں مزید لکھا کہ اس دوران کم از کم چار ممالک نے ایران کے حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل کی کھلے عام مدد کی، یعنی امریکہ، انگلینڈ، فرانس اور اردن، اور یہ ایک بہت بڑی فضائی دفاعی کوشش تھی۔
دوسری جانب ایران نے اسرائیل پر حملے کے لیے 170 سستے ڈرونز کا استعمال کیا جب کہ اسرائیل نے ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کو روکنے کے لیے بہت زیادہ رقم خرچ کی۔
ڈیوڈ ہرسٹ کے مطابق ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اسرائیل کو یہ پیغام پہنچا کہ ایران عراق میں حزب اللہ یا انصار اللہ یا اس کے اتحادیوں کو استعمال کیے بغیر اسرائیل کو براہ راست دور سے نشانہ بنا سکتا ہے۔
اس حملے میں ایران نے جو ہتھیار استعمال کیے وہ اس ملک کی فائر پاور کی ایک چھوٹی سی مثال تھے لہٰذا اس حملے کے بعد ایران نے پہل کی اور امریکہ کو خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے کوئی اور اقدام کیا تو ایران کا جواب سخت ہوگا۔
مزید پڑھیں: ایران کا صیہونی حکومت کو سبق سکھانے کے بارے میں پینٹاگون نے کیا کہا؟
اس آرٹیکل کے مطابق اس کارروائی میں ایران کا امریکہ کے لیے پیغام بھی بہت مضبوط تھا، اس مواد کے ساتھ کہ ایران مغرب کی پرواہ کیے بغیر اسرائیل کو بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور ساتھ ہی بائیڈن کو یہ وارننگ بھی دی کہ ایران خلیج فارس کے علاقے میں امریکہ کو بھی ہدف بنا سکتا ہے۔
ایران جنگ کا خواہاں نہیں ہے لیکن وہ کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی طاقت رکھتا ہے، اس لیے ایران کا امریکہ کو اہم پیغام یہ تھا کہ یہ ملک اپنی سرکش اولاد (اسرائیل) کو روکے۔