سچ خبریں:عطوان نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ صیہونیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والے عرب ممالک صیہونی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کا آلہ بن چکے ہیں، اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کی تباہی بہت قریب آچکی ہے۔
بنیامین نیتن یاہو کی سربراہی میں اقتدار میں آنے والی انتہائی دائیں بازو کی نئی صیہونی کابینہ نے فلسطینیوں کے خلاف اپنی فسطائی اور نسل پرستانہ پالیسیوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے یہ ہمیشہ صیہونیوں سے ہم آہنگ رہنے والی فلسطینی اتھارٹی کے خلاف پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں جس کے بعد صیہونی حکومت نے فلسطینی اتھارٹی کے قرضوں سے 139 ملین شیکل (تقریباً 39 ملین ڈالر) کی کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے، جو صیہونیوں کے مطابق اس سے قبل فلسطینی قیدیوں اور شہداء کے اہل خانہ کو ماہانہ تنخواہ کے طور پر ادا کیا جاتا تھا،اس کے علاوہ مغربی کنارے کے (C)علاقے میں جو اس علاقے کا 60 فیصد حصہ ہے، میں فلسطینیوں کی تعمیر روک دی جائے گی، یاد رہے کہ قابض حکومت نے فلسطینی اتھارٹی کے اہلکاروں کے خلاف پابندیاں عائد کر دی ہیں جنہوں نے ہیگ کی عدالت سے فلسطینی زمینوں پر اسرائیل کے قبضے کی نوعیت کا تعین کرنے کو کہا ہے۔
اسی تناظر میں عرب دنیا کے ممتاز تجزیہ نگار اور رائے الیوم اخبار کے ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے اپنے نئے کالم میں لکھا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم محمد آشتیہ نے قابض حکومت پر اس تنظیم کے املاک کو بلاک کرنے جیسے اقدامات کر کے اسے کمزور کرنے کا الزام عائد کیا ہے،عطوان نے مزید کہا، فلسطینی اتھارٹی ایک ایسا ادارہ تھا جو اسرائیل کے فیصلے سے قائم ہوا تھا، اور یہ اوسلو معاہدے کے ذریعے یہودیوں کی سب سے خطرناک ایجادات میں سے ایک ہے جو قابض حکومت کی خدمت، اس حکومت کی زندگی کو طول دینے اور اس کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے، یا دوسرے الفاظ میں، اس کے اخراجات مفت کرنے، صیہونی آبادکاروں کی حمایت اور فلسطینی قوم کی کسی بھی قسم کی مزاحمت کو دبانے کے لیے تشکیل دیا گیا، شاید اس مرحلے پر صہیونی حکام کچھ ایسا کریں گے جو فلسطینی قوم نہیں کر سکی، میرا مطلب ہے اس تنظیم کو ختم کرنا۔
اس کالم کے تسلسل میں کہا گیا ہے کہ صیہونی حکومت فلسطینی اتھارٹی کے خلاف جو کاروائیاں کر رہی ہے وہ اس تنظیم کے ان اقدامات کی وجہ سے ہے جس میں اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں بھیجا ہے تاکہ اس کی نوعیت اور طریقہ کا تعین کیا جا سکے نیز اس حکومت کے قبضے اور اس کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام کے خلاف قانونی احکام جاری کیے جائیں جو صیہونی روزانہ کرتے ہیں اور فلسطینی عوام کے خلاف جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں، اس لیے کہ قابض حکومت فلسطینی اتھارٹی کے اس اقدام کو جرم سمجھتی ہے اور اسے دہشت گردی اور یہود دشمنی کے دائرے میں قرار دیتی ہے گویا فلسطینی قوم کے لیے اسرائیل کے جرائم کے خلاف آواز اٹھانا جرم ہے۔
عبدالباری عطوان نے مزید کہا کہ اگر فسطینی اتھارٹی کے حکام کو اپنی شکایات بین الاقوامی اداروں تک پہنچانے سے روکا جاتا ہے تو وہ اپنی شکایات کہاں لے جائیں؟ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اس سوال کا جواب النقب کانفرنس” کے عنوان سے ایک نئی دیوار بنا کر دے رہا ہے، جس کی بنیادوں کو امریکہ نے مضبوط کیا اور جو قابض حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والے4 ممالک مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین، اور مغرب پر مشتمل ہے، گزشتہ روز اس کانفرنس کی ایک دستاویز، جسے رکن جماعتوں کے نمائندوں نے ابوظہبی میں بلایا تھا، سامنے آئی ہے،اس رپورٹ کے مطابق مذکورہ کانفرنس سے افشا ہونے والی دستاویز کا مواد یہ ہے کہ اس کانفرنس کے اراکین نے، جو مارچ میں مغرب میں منعقد ہونے والی ہے، میں علاقائی تعاون کے استعمال پر بات چیت اور فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان مصالحتی مذاکرات کے آغاز کی راہ ہموار کیے جانے پر اتفاق ہو گیا ہے، دوسرے لفظوں میں، ایسا لگتا ہے کہ النقب کانفرنس اقوام متحدہ اور اس سے متعلقہ اداروں (فلسطین کے معاملے میں) کی جگہ لے لے گی ، اس کا ایک واضح ترین مشن اسرائیلی قبضے کے تحت فلسطین کی موجودہ صورتحال کو مستحکم کرنا ہے اور اس طرح کے اقدامات کو نافذ کرنا ہے جس سے صہیونیوں کے کنٹرول اور قبضے میں رہتے ہوئے فلسطینیوں کی زندگیوں کو بہتر بنانا اور ان کی معیشت کو مضبوط کرنا ہے۔
عرب زبان اس تجزیہ کار نے مزید لکھا کہ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی جو فلسطینی قوم کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے، کو اس کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا، دوسرے لفظوں میں، ایک ایسی تنظیم جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلسطینیوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے بنائی گئی تھی،یہ اس تنظیم کے لیڈروں کے لیے رام اللہ سمیت پورے فلسطین کی سطح پر ذلت ہے، ہم نہیں جانتے کہ کیا سمجھوتہ کرنے والے یہ چار عرب ممالک جو النقب کانفرنس میں شرکت کا ارادہ رکھتے ہیں یہ جانتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی نے گزشتہ 30 سالوں میں قابض حکومت کے ساتھ اوسلو معاہدے کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے بات چیت کی جس کا نیتجہ مغربی بنک میں اور قدس 800000 صیہونی آبادکاروں کی آبادکاری کی صورت میں سامنے آیا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر سمجھوتہ کرنے والے عرب ممالک ان حقائق کو نہیں جانتے یا ان سے لاتعلق ہیں تو انہیں یہ حقائق یاد دلانا کوئی بری بات نہیں ہے، تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ اس تنظیم (النقب کانفرنس) میں امریکہ اور اس کے عرب شراکت داروں نے اردن پر اس میں شمولیت کے لیے بہت دباؤ ڈالا یہاں تک کہ صہیونی کابینہ نے اردن کو دھمکی بھی دی کہ ہم مغربی کنارے سے تمام فلسطینیوں کو ملک بدر کردیں گے جو اردن ہی آئیں گے، اس رپورٹ کے مطابق دوسرے لفظوں میں صیہونی حکومت اردن کو فلسطین میں "دو ریاستی” حل کا شکار بنانا چاہتی ہے، اس طرح کہ اردن میں فلسطینیوں کی آزاد حکومت قائم ہو، یہی نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی اور فاشسٹ کابینہ کا منصوبہ ہے ، تاہم ہمیں امید ہے کہ اردن کے مشکل معاشی اور سیاسی حالات اور اس کے سامنے پیش کیے جانے والے مالی سبز باغوں کے باوجود یہ دباؤ ناکام ہو جائے گا یہ تمام امریکی اسرائیلی منصوبے اور سازشیں جن کو استعمال میں لانے کے لیے انہوں نے بعض عرب ممالک کو وسیلہ بنا رکھا ہے، سیلاب کے ڈھیر کی مانند ہیں اور ناکامی سے دوچار ہیں۔
عطوان نے زور دے کر کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ یہی عرب ممالک فلسطین کے خلاف سازشوں کے پیچھے بھی دکائی دے رہے ہیں اور شاید یہی وہ لوگ ہیں جنہیں قابض حکومت کی کمزوری اور تیزی سے زوال، بین الاقوامی تبدیلیاں نیز یوکرین جنگ دوسرے سال میں داخل ہوتی نظر نہیں آتی ،اسی طرح انہیں دنیا میں ایک قطبی عالمی نظام کا خاتمہ اور کثیر قطبی نظام کی ایجاد بھی دکھائی نہیں دے رہی ،کالم کے آخر میں کہا گیا ہے کہ جب قابض حکومت خطے کی سب سے بڑی طاقت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور ساتھ ہی فلسطینی پرچم کے لہرائے سے خوفزدہ ہوتی ہے اور اسے جرم سمجھتی ہے نیز عرین الاسود، جنین اور بلاتہ بٹالین جیسے مزاحمتی گروپوں کے نام سے کانپ اٹھتی ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ ریاست تیزی سے تباہی کے راستے پر گامزن ہے اور اسرائیل کی تباہی میں صرف کچھ ہی وقت کی بات ہے اس لیے کہ گزرتے دن اس بات کو ثابت کرتے ہیں۔