سچ خبریں:حقیقت یہ ہے کہ آج بین الاقوامی نظام پہلے سے کہیں زیادہ صیہونی حکام میں توسیع پسندی، قبضے اور جارحیت کی خواہش کا مشاہدہ کر رہا ہے!
اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس پر قابض حکومت کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کو امریکی خارجہ پالیسی کے میدان میں ایک مثالی کامیابی قرار دیا لیکن آج دنیا اس نظام کے خاتمے کا مشاہدہ کر رہی ہے جسے نیتن یاہو اور ٹرمپ نے ناقابل تحلیل تصور کیا تھا۔
زیادہ دور ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں! بلکہ حالیہ مہینوں میں صیہونی حکومت کا غیر قانونی بستیوں کی تعمیر پر اصرار اور فلسطینیوں کے کم سے کم حقوق کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے اس کی عالمی تنہائی کے علاوہ ہم اس حکومت کی علاقائی تنہائی کا بھی مشاہدہ کر رہے ہیں جس کی تازہ ترین مثال اردن سے اسرائیلی سفیر کی بے دخلی ہے۔
اردن کی پارلیمنٹ نے نیتن یاہو کے وزیر خزانہ اسموٹریچ کے توسیع پسندانہ موقف کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے متفقہ طور پر اس ملک حکومت سے عمان میں تل ابیب کے نمائندے کو ملک بدر کرنے کا کہا جس کے بعد اردنی حکومت صیہونی سفیر کو ملک بدر کرنے کی پابند ہو چکی ہے۔
واضح رہے کہ اردن کی پارلیمنٹ نے اپنے حالیہ اجلاس میں ایک نقشہ پیش کیا جس پر اردن اور فلسطین کے جھنڈے درج تھے،اردنی پارلیمنٹ کا یہ اقدام انتہائی دائیں بازو کی مذہبی صیہونی پارٹی کے رہنما اسموٹریچ کے موقف کے جواب میں سامنے آیا ہے جس نے پیرس میں دعویٰ کیا تھا کہ فلسطینی قوم نام کی کوئی چیز نہیں! اس کے علاوہ اس صہیونی وزیر کی تقریر کے پوڈیم پر ایک توسیع پسندانہ نقشہ بھی نصب کیا گیا تھا جس میں اردن کی سرزمین کا ایک حصہ بھی مقبوضہ علاقوں کے ساتھ ملایا گیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی نظام آج پہلے سے کہیں زیادہ تل ابیب کے حکام میں توسیع پسندی، قبضے اور جارحیت کی خواہش کا مشاہدہ کر رہا ہے! یہاں تک کہ وہ اداکار بھی جو حال ہی میں خطے میں مشترکہ مواقع حاصل کرنے کے لیے صیہونیوں کے ساتھ دوستی پر یقین رکھتے تھے وہ بھی بیت المقدس پر قابض حکومت کے بارے میں پہلے سے کہیں زیادہ اپنے اندازے کے غلط ہونے سے آگاہ ہو چکے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اب صیہونی حکام نے غیر فعال دو ریاستی منصوبے جو خطے میں تل ابیب اور عرب اداکاروں کے درمیان ابتدائی معاہدے کی بنیاد تھا، (جسے فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے) کو بھی مسترد کر دیا ہے، وہ اس وقت پوری فلسطینی سرزمین پر صیہونی حاکمیت کے نعرے لگا رہے ہیں، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اردن سمیت خطے کے دیگر ممالک کو بھی مقبوضہ علاقوں میں شامل کر رہے ہیں!
یقیناً اسموٹریچ، نیتن یاہو اور بن گوئر جیسے لوگ آج جو بھی کر رہے ہیں، وہ صیہونی حکومت کی جنگلی اور غاصبانہ نوعیت کے حوالے سے عرب دنیا کے بعض سیاست دانوں کی پر امید پالیسی کا نتیجہ ہے، آج یہ بات سب پر عیاں ہوچکی ہے کہ تل ابیب اور واشنگٹن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے کیا نتائج نکلیں گے، اردنی حکام پہلے سے کہیں زیادہ اس سے آگاہ ہوچکے ہیں،امید ہے کہ یہ آگاہی ایک قابض، غیر مستحکم اور توسیع پسند عنصر کے خلاف حال اور مستقبل میں درست اور عقلی فیصلوں کی بنیاد بنے گی۔