کراچی (سچ خبریں) اداکارہ ماہرہ خان کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے نشانہ بننے والی خاتون کو ہی قصوروار سمجھا جاتا ہے اس معاشرے میں ‘ریپ’ اور ‘استحصال’ کا نشانہ بننے والی خواتین کو قصور وار سمجھ کر ان سے نا مناسب سوالات کیے جاتے ہیں۔ جب بھی کسی خاتون کے ساتھ ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو ملزم کو پکڑنے کے بجائے اسی خاتون سے غلط سوالات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
اداکارہ نے پاکستانی نژاد برطانوی میزبان اور سوشل میڈیا اسٹار عتیقہ چوہدری کو دیے گئے انٹرویو میں نہ صرف پاکستانی معاشرے میں استحصال کا نشانہ بننے والی خواتین کو قصور وار سمجھنے جیسے مسائل پر بات کی بلکہ انہوں نے شوبز سمیت معاشرتی برائیوں پر بھی کھل کر بات کی۔
اداکارہ نے انٹرویو میں اس تاثر کو بھی مسترد کیا کہ وہ صرف مخصوص فلم سازوں، مصنفوں اور پروڈیوسرز کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ماہرہ خان کے مطابق اگر ان کے ڈراموں اور فلموں کا جائزہ لیا جائے گا تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے مختلف طرح کی سوچ اور کہانیاں پیش کرنے والے افراد کے ساتھ کام کیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اداکارہ نے کہا کہ پاکستان جیسے ممالک میں ‘ریپ، جنسی ہراسانی اور استحصال’ کا نشانہ بننے والی خواتین کو ہی قصور وار سمجھ کر انہیں کٹہرے میں کھڑا کر کے ان سے غلط سوالات کیے جاتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ جب بھی کسی خاتون کے ساتھ ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو ملزم کو پکڑنے کے بجائے اسی خاتون سے غلط سوالات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
ماہرہ خان کا کہنا تھا کہ نشانہ بننے والی خاتون سے متعلق ہی سوالات شروع کیے جاتے ہیں کہ وہ جائے وقوع پر اکیلی کیوں گئی تھیں؟ وہ وہاں کیا کر رہی تھیں اور وہ جس کے ساتھ تھیں، وہ ان کا بوائے فرینڈ تھا؟اداکارہ کے مطابق مذکورہ تمام سوالات غلط ہیں اور ان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نشانہ بننے والی خاتون کو ہی قصور وار سمجھا جاتا ہے۔
ماہرہ خان کا کہنا تھا کہ ایسی ذہنیت کو تبدیل کرنے کے لیے تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں لانی پڑیں گی۔اداکارہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ خواتین کو قصور وار سمجھنے اور ان سے ہی سوالات کرنے والی ذہنیت کو تبدیل کرنے کے لیے ٹیلی وژن (ٹی وی) اور فلمیں بھی کام کر سکتی ہیں۔
اسی حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے 2017 کی فلم ‘ورنہ’ میں ‘ریپ’ کا نشانہ بننے والی ایسی لڑکی کا کردار ادا کیا جو مجرم سے بدلہ لیتی ہے تو لوگوں نے ان سے سوالات کرنا شروع کیے۔