آج ہونے والی سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، ایڈووکیٹ عرفان قادر، پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر اور الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی عدالت میں حاضر ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر پیپلزپارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے اور عدالت کو آگاہ کیا کہ ’درخواست میں فریق بننے کی درخواست دائر کردی ہے‘۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آپ اپنا موقف پیش کرنا چاہتے ہیں، آپ کی درخواست پی ڈی ایم کی طرف سے ہے؟‘، اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’پہلے الیکشن کمیشن کے وکیل کو سنیں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’الیکشن کمیشن آرڈر کے بغیر کیسے عمل کررہا ہے، 4 ججز میں سے 2 میرے بھی سینیئر ہیں‘، اس پر چیف جسٹس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’چلیں آپ کی وضاحت آگئی ہے‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’مجھے ابھی بات کرنی ہے‘، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے، جسٹس جمال کے ریمارکس کے بعد فل کورٹ بنائی جائے‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’فل کورٹ کیوں؟ وہی 7 ججز بینچ میں بیٹھنے چاہئیں‘، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’فل کورٹ وقت کی ضرورت ہے، پہلے طے کرلیں کہ فیصلہ 4/ 3 کا تھا یا 3/2 کا تھا، ساری قوم ابہام میں ہے‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’4 ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تو الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے دیا؟‘
دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آ گئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کس حکم کے تحت فیصلے پر عملدرآمد کیا؟’، سجیل سواتی نے جواب دیا کہ ’میں اپنی گذارشات پیش کروں گا، الیکشن کمیشن نے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر سے رجوع کیا، صدر مملکت نے 30 اپریل کی تاریخ دی‘۔
سجیل سواتی نے مزید کہا کہ ’تاریخ مقرر کرنے کے بعد شیڈول جاری کیا اور انتخابات کی تیاریاں شروع کردیں، آرٹیکل 218 کی ذمہ داری کسی بھی قانون سے بڑھ کر ہے، انتخابات کےلیے سازگار ماحول کا بھی آئین میں ذکر ہے، آرٹیکل 224 کےتحت الیکشن 90 روز میں ہونے ہیں‘، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن کے وکیل نے اچھی تیاری کی ہے‘۔
دوران سماعت پیپلزپارٹی کے وکیل نے کہا کہ ’ہم نے فریق بننے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے‘، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم الیکشن کمیشن کو سن کر پھر فیصلہ کریں گے‘۔
اس دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ ’عدالت مجھے بھی سنے‘۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’کل کے ریمارکس پر وضاحت کرنی ہے، میں نے جو مختصر اور تفصیلی فیصلہ دیا اس پر قائم ہوں، از خود نوٹس لینے کا اختیار کس کا ہے یہ اندرونی معاملہ ہے، آرڈر آف دی کورٹ 4 ججز پر مشتمل فیصلہ تھا، آرڈر آف دی کورٹ چیف جسٹس نے جاری نہیں کیا، سوال یہ بھی ہے کہ جب چیف جسٹس نے تفصیلی فیصلہ نہیں دیا تو پھر الیکشن کمیشن اور صدر نے مشاور کے بعد شیڈول جاری کیا‘۔
اس دوران فاروق ایچ نائیک نے دوبارہ استدعا کی کہ ’جسٹس جمال خان کے ریمارکس پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے، پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ فیصلہ 4 ججوں کا ہے یا 3 کا؟ پوری قوم اس وقت کنفیوژن کا شکار ہے‘، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’آپ تحریری طور پر درخواست دے دیں‘۔
سجیل سواتی نے کہا کہ ’عدالتی آرڈر میں لکھا ہے کہ فیصلہ 3/2 سے ہے،3/2 والے فیصلے پر پانچ ججز کے دستخط ہیں، کمیشن نے فیصلہ کے پیراگراف 14 اور ابتدا کی سطروں کو پڑھ کر عمل کیا‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا آپ نے مختصر حکم نامہ دیکھا تھا؟‘، سجیل سواتی نے جواب دیا کہ ’ممکن ہے کہ ہمارے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو‘۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’کیا مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ فیصلہ 4/3 کا ہے؟‘، سجیل سواتی نے جواب دیا کہ ’اسی بات کو دیکھ کر عدالتی حکم پر عمل کیا‘۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’یکم مارچ کے اختلافی نوٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، اختلاف رائے جج کا حق ہے، یہ اقلیت کسی قانون کے تحت خود کو اکثریت میں ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی‘۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’کھلی عدالت میں 5 ججز نے مقدمہ سنا اور فیصلے رہ دستخط کیے‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا، مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے ہیں، اختلافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور اطہر من اللہ کے فیصلے سے متفق ہیں، کیا جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہو گئے؟‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’جو معاملہ ہمارے چیمبرز کا ہے اسے وہاں ہی رہنے دیں، اٹارنی جنرل اس نقطہ پر اپنے دلائل دیں گے‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا کیا مؤقف ہے‘، سجیل سواتی نے جواب دیا کہ ’4/3 کے فیصلے پر الیکشن کمیشن سے ہدایات نہیں لیں‘۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’دونوں ججز کا احترام ہے مگر اقلیتی فیصلہ اکثریتی فیصلے پر غالب نہیں آسکتا، قانون واضح ہے کہ اقلیتی فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، جسٹس منصور اور جسٹس جمال خان کا فیصلہ اقلیتی ہے‘۔
سجیل سواتی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے کوششیں کیں، الیکشن کمیشن نے سیکشن 57 کے تحت الیکشن کی تاریخیں تجویز کیں، 3 مارچ کو عدالتی فیصلہ موصول ہوا، الیکشن کمیشن نے اپنی سمجھ سے فیصلے پر عملدرآمد شروع کیا، الیکشن کمیشن نے ووٹ کے حق اور شہریوں کی سکیورٹی کو بھی دیکھنا ہے، صدر کی طرف سے تاریخ ملنے پر شیڈول جاری کیا‘۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کے 22 مارچ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے، 22 مارچ کا آرڈر کب جاری کیا‘، اس پر سجیل سواتی نے کہا کہ ’آرڈر 22 مارچ شام کو جاری کیا، جب آرڈر جاری کیا تو کاغذات نامزدگیاں موصول ہو چکی تھیں، آرڈر جاری ہونے تک شیڈول کے چند مراحل مکمل ہو چکے تھے‘۔
سجیل سواتی نے مزید کہا کہ ’فوج نے الیکشن کمیشن کو جوان دینے سے انکار کیا، آئین کا آرٹیکل 17 پرامن انتخابات کی بات کرتا ہے، آئین کے مطابق انتخابات صاف شفاف پرامن سازگار ماحول میں ہوں، الیکشن کمیشن نے فوج رینجرز اور ایف سی کو سکیورٹی کے لیے خط لکھے‘۔
سجیل سواتی نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ ’ایجنسیوں نے الیکشن کمیشن کو خفیہ رپورٹس دیں، عدالت کہے گی تو خفیہ رپورٹس بھی دکھا دیں گے، رپورٹس میں بھکر میانوالی میں ٹی ٹی پی، سندھو دیش اور مختلف کالعدم تنظیموں کی موجودگی ظاہر کی گئی، الیکشن کے لیے 4 لاکھ 12 ہزار کی نفری مانگی گئی، 2 لاکھ 97 ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے‘۔
جسٹس منیب نے ریمارکس دہے کہ ’آپ 8 فروری کے لیٹرز پر انحصار کر رہے ہیں ، عدالت نے یکم مارچ کو اپنا فیصلہ دیا، کیا آپ کو فروری میں خیال تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے، دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے سے انحراف کا سوچ نہیں سکتے، اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھا تو صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اس کے علاؤہ بہت سارے سوالات ہیں، جسٹس منیب اختر کے سوالات نوٹ کر لیں، آپ دلائل دیں پھر سوالوں کے جواب دیں‘۔
سجیل سواتی نے کہا کہ ’پس منظر کے طور پر ان رپورٹس کا حوالہ دیا ہے، الیکشن کمیشن نے فیصلہ 22 مارچ کو کیا، اس سے پہلے یہ گراؤنڈز دستیاب تھے، اس کے بعد انتخابات کے حوالے سے میٹنگ ہوئی، وزارت داخلہ نے بھی 8 فروری کے خط میں امن و امان کی خراب صورتحال کا ذکر کیا‘۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن کے فیصلے میں 20 ارب کا ذکر ہے لیکن کل عدالت کو 25 ارب کا بتایا گیا‘، سجیل سواتی نے کہا کہ ’5 ارب روپے پہلے ہی الیکشن کمیشن کو جاری ہو چکے ہیں، وزارت خزانہ نے بتایا کہ موجودہ مالی سال میں الیکشن کے لیے فنڈز جاری نہیں کر سکتے، سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ بیس ارب روپے جاری کرنا ناممکن ہو گا، پنجاب کیلئے 2لاکھ 97 ہزار سیکورٹی اہلکاروں کی کمی کا بتایا گیا‘۔
جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ ’کیا الیکشن کے لیے قومی اسمبلی نے فنڈز کی منظور دی ہوئی ہے‘، سجیل سواتی نے کہا کہ ’وزارت خزانہ اس بات کا تفصیل سے جواب دے سکتی ہے‘۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’الیکشن تو ہر صورت 2023 میں ہونا تھے، کیا بجٹ میں 2023 الیکشن کیلئے بجٹ نہیں رکھا گیا تھا‘۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’انتخابات کیلئے بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھنا ہے، قبل ازوقت اسمبلی تحلیل ہوئی اس کا علم نہیں تھا‘۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’اگر انتخابات پورے ملک میں ایک ساتھ ہوں تو کتنا خرچ ہوگا؟، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’ملک بھر میں ایک ہی دفعہ انتخابات ہوں تو 47ارب روپے خرچ ہوں گے، انتخابات الگ الگ ہوں تو بیس ارب روپے اضافی خرچ ہوگا‘۔
سجیل سواتی نے کہا کہ ’سپیشل سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ سیاسی شخصیات کو سیکیورٹی خطرات ہیں، وزارت داخلہ کے مطابق سیکورٹی خطرات صرف الیکشن کے روز نہیں الیکشن مہم کے دوران بھی ہوں گے، وزارت داخلہ نے عمران خان پر حملے کا بھی حوالہ دیا، کمیشن کو بتایا گیا تھا کہ فوج کی تعیناتی کے بغیر الیکشن کو سکیورٹی فراہم کرنا ناممکن ہو گا، سپیشل سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ان حالات میں پرامن انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکتا، سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں کالعدم تنظیموں نے متوازی حکومتیں بنا رکھی ہیں‘۔
سجیل سواتی نے مزید کہا کہ ’خفیہ رپورٹس میں بتایا گیا کہ مختلف دہشتگرد تنظیمیں متحرک ہیں، خفیہ رپورٹس کے مطابق خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں شیڈو حکومتیں قائم ہیں، 2023 میں سکیورٹی کے 443 تھریٹس کے پی کے میں موصول ہوئے، خیبرپختونخوا میں رواں سال دہشگردی کے 80 واقعات ہوئے، 170 شہادتیں ہوئیں، خفیہ رپورٹس کے مطابق ان خطرات سے نکلنے میں چھ سے سات ماہ لگیں گے، رپورٹس کے مطابق عوام میں عدم سکیورٹی کا تاثر بھی زیادہ ہے، خیبرپختونخوا کے 80 فیصد علاقوں سکیورٹی خطرات زیادہ ہیں، کے پی میں خفیہ ایجنسیوں نے رپورٹس دیں کہ افغانستان سے دہشت گرد داخل ہوچکے‘۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’یہ باتیں بہت اہم ہیں، کیا یہ سب صدر مملکت کو بتایا گیا؟‘، اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ ’تمام صورتحال سے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا تھا‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’خیبرپختونخوا میں دہشت گردی سے متعلق رپورٹس سنجیدہ ہیں‘۔
سجیل سواتی نے مزید کہا کہ ’امریکی انخلا کے بعد افغانستان سے دہشتگرد حملے کر رہے ہیں‘، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’جو معلومات آپ دے رہے ہیں وہ سنگین نوعیت کی ہیں، کیا آپ نے یہ باتیں صدر مملکت کے علم میں لائی، اگر صدر پاکستان کو نہیں بتایا تو آپ نے غلطی کی ہے، صدر مملکت نے تاریخ الیکشن کمیشن کے مشورے سے دی تھی، خفیہ رپورٹس میں کہا گیا کہ علاقوں کو کلیئر کرنے میں 6 ماہ لگیں گے، سیکیورٹی سے متعلق اعداد و شمار بڑے سنجیدہ ہے‘۔
سجیل سواتی نے کہا کہ ’پنجاب نے بھی مختلف علاقوں میں جاری آپریشن کا ذکر کیا‘، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کو علم ہے کہ کچے کے علاقوں میں ہر 2 سے 3 روز بعد آپریشن ہوتا ہے، پنجاب میں کچے کا آپریشن کب مکمل ہوگا‘۔
سجیل سواتی نے جواب دیا کہ ’پنجاب کے مطابق کچے میں آپریشن مکمل ہونے میں 6 ماہ تک لگ جائیں گے، الیکشن کمیشن کے پاس خفیہ اداروں کی رپورٹ پر شک کرنے کی گنجائش نہیں‘۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’کیسی بات کر رہے ہیں، 2 اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں‘، اس پر سجیل سواتی نے کہا کہ ’ایجنسیوں کی رپورٹس میں جو حقائق بیان کیے گئے وہ نظرانداز نہیں کر سکتے‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’کیا کوئی طریقہ کار ہے الیکشن کمیشن ان رپورٹس کی تصدیق کروا سکے؟‘، اس پر سجیل سواتی نے کہا کہ ’واقعات میڈیا پر رپورٹ ہو رہے ہیں‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’دہشت گردی کا مسئلہ تو ہے، 20 سال سے ملک میں دہشتگردی کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود ملک میں انتخابات ہوتے رہے ہیں، 90 کی دہائی میں 3 دفعہ الیکشن ہوئے، 90 کی دہائی میں فرقہ واریت اور دہشتگردی عروج پر تھی، 58/2 بی کے ہوتے ہوئے ہر 3 سال بعد اسمبلی توڑ دی جاتی تھی‘۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر سمیت دیگر کی رپورٹس درست ہوں گی، دہشت گردی کے خطرات اپنی جگہ مگر آئین پر عملدرآمد تو لازمی ہے، الیکشن کمیشن تو کہہ رہا ہے ہمیں سہولیات مل جائیں تو ہم تیار ہیں، فوجی جوانوں کی قربانیاں لازوال ہیں‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’صدر مملکت کو یہ حقائق بتائے بغیر آپ نے تاریخیں تجویز کر دیں‘، اس پر سجیل سواتی نے کہا کہ ’صدر مملکت نے تاریخ کی تبدیلی پر الیکشن کمیشن کو خط نہیں لکھا، صدر مملکت نے تاریخ کی تبدیلی پر وزیراعظم کو خط لکھ دیا‘۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’پنجاب میں دہشتگردی کے 5 واقعات ہوئے، آخری واقعہ سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملہ تھا‘۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’اگر ادارے آپ کو معاونت فراہم کریں تو کیا آپ الیکشن کروائیں گے، بظاہر الیکشن کمیشن کا سارا مقدمہ خطوط پر ہے، الیکشن کمیشن کا مسئلہ فنڈزکی دستیابی کا ہے‘۔
اس دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عام انتخابات کے لیے بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھنا ہے، ملک بھر میں ایک ہی دفعہ انتخابات ہوں تو 47 ارب روپے خرچ ہوں گے، انتخابات الگ الگ ہوں تو 20 ارب روپے اضافی خرچ ہوگا‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’تحریک انصاف اور حکومت کو سیاسی ماحول ٹھنڈا رکھنے کا کہا تھا، موجودہ سیاسی ماحول میں پرامن انتخابات نہیں ہوسکتے، ہمیں نہ تو علی ظفر اور نہ اٹارنی جنرل نے اس بارے جواب دیا، ہم کیس آگے بڑھانے سے پہلے یقین دہانی چاہتے ہیں‘۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن خود کو آئینی ادارہ کہتا ہے، 2 اسمبلیاں تحلیل ہیں الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کی زمہ داری ہے، الیکشن کمیشن شیڈول جاری کرتا یے، اور اچانک سے اپنا فیصلہ بدل دیتا ہے، الیکشن کمیشن کا مقدمہ آرٹیکل 218 کا ہے’
الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ ’فنڈز اور اداروں سے معاونت مل جائے تو پنجاب میں الیکشن کروانے کے لیے تیار ہیں، ہم اپنی آئنی زمہ داریوں سے انحراف نہیں کر رہے‘۔
جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریوں کے لیے تیار ہے، معاونت چاہیے، ہر انسانی جان قیمتی ہے، دہشگردی کے واقعات سنگین ہیں، فرنٹ لائن پر عوام کا تحفظ کرنے والے سکیورٹی اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، عدالت نے ان حالات کے ساتھ آئین کو بھی دیکھنا ہے‘۔
سجیل سواتی نے کہا کہ وفاقی کابینہ کو 20 مارچ کو الیکشن کمیشن نے خط لکھا، کابینہ نے 21 مارچ کو الیکشن کمیشن کو جواب میں وزارت دفاع کے موقف کی تائید کی، کابینہ نے کہا کہ الیکشن کے لیے فوج تعیناتی کی منظوری نہیں دے سکتے، کابینہ نے الیکشن کمیشن کو فنڈز دینے سے بھی معذرت کی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن نے فیصلہ کرنے سے پہلے عدالت سے رجوع کیوں نہیں کیا، الیکشن کمیشن شیڈول منسوخ کرنے سے پہلے عدالت سے رجوع کر سکتا تھا‘، اس پر سجیل سواتی نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے عدالتی حکم پر عمل کیا‘۔
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’جس عدالتی حکم پر تمام ججز کے دستخط ہیں وہ کہاں ہے، صبح سے پوچھ رہا ہوں کوئی بھی عدالتی حکم سامنے نہیں لا رہا‘، اس پر سجیل سواتی نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کی سمجھ کے مطابق فیصلہ 3/2 کا تھا‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’عدالت کا مقصد سیاسی نظام کو چلنے رہنے دینا ہے، سیاسی جماعت بھی سیاسی نظام کو آگے بڑھانے کی مخالفت نہیں کرتی، ایک مسئلہ سیاسی درجہ حرارت کا ہے، علی ظفر اور اٹارنی جنرل کو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے پر ہدایت لیکر اگاہ کرنے کا کہا تھا، سیاسی درجہ حرارت کم ہونے تک انتحابات پر امن نہیں سکتے، کسی فریق نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی‘۔
پی ٹی کی جانب سے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ’عدالت کو مکمل یقین دہانی کروانے کے لیے تیار ہیں‘، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’یقین دہانی کس کی طرف سے ہے؟‘
علی ظفر نے جواب دیا کہ ’چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے تحریری یقین دہانی کروائیں گے‘، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت کی پارٹی کی باری آئے گی تو ان سے بھی اس حوالے سے بات کریں گے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ’جہاں مسئلہ زیادہ ہے اس ضلع میں انتحابات مؤخر بھی ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے کچے کے آپریشن کیوجہ سے پورے پنجاب میں الیکشن ملتوی کردیا، خیبرپختونخوا میں الیکشن کیُ تاریخ دے کر واپس لی گئی، 8 اکتوبر کی تاریخ پہلے سے مقرر کی گئی، 8 اکتوبر کو کون سا جادو ہو جائے گا جو سب ٹھیک ہو جائے گا‘۔
الیکشن کمشین کے وکیل نے کہا کہ ’8 التوبر کی تاریخ عبوری جائزے کے بعد دی گئی‘، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’عبوری جائزے کا مطلب ہے کہ انتحابات مزید تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں، عدالت کو پکی بات چاہیے‘۔
وقفے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کی 8 اکتوبر کی تاریخ عارضی نہیں ہے، اگر کچھ علاقوں میں انتخابات کرائیں تو ایجنسیوں کے مطابق وہیں دہشتگردی کا فوکس ہوگا، الیکشن کمیشن کے انتخابات کرانے کی ذمہ داری سے کوئی بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوتے‘۔
انہوں نے مزید کہ کہ ’عدالتی سوالات پر ہدایات لی ہیں، 8 اکتوبر کی تاریخ بلاوجہ نہیں، ایجنسیوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس دوران انتظامات مکمل کرلیے جائیں گے، الیکشن کمیشن کی 8 اکتوبر کی تاریخ عارضی نہیں ہے، اگر کچھ علاقوں میں انتخابات کرائیں تو ایجنسیوں کے مطابق وہیں دہشتگردی کا فوکس ہو گا‘۔
سماعت کے آغاز سے قبل سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے انتخابات ملتوی کیس میں فریق بننے کی درخواست وصول کرلی۔
قبل ازیں رجسٹرار آفس نے تینوں سیاسی جماعتوں کی فریق بننے کی درخواست وصول کرنے سے انکار کرتے ہوئے مذکورہ درخواست دوران سماعت عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کردی تھی۔
خیال رہے کہ انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے فریق بننے کا فیصلہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت سے قبل کیا تھا۔
دریں اثنا وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ نے سپریم کورٹ کے باہر رہنما جمیعت علمائے اسلام (ف) مولانا عبدالغفور حیدری کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں اس لیے پیش ہوئے کیونکہ ہم عدالت سے انصاف چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ قانون کی عملداری میں عدالت اپنا کردار ادا کرے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر ابہام لارجر بینچ یا فل کورٹ ہی دور کرسکتا ہے، ہماری پہلے بھی یہی استدعا رہی ہے اور ابھی یہی استدعا ہے کہ اس سوموٹو ںوٹس کی سماعت فل کورٹ کرے تو یہ معاملہ زیادہ خوش اسلوبی سے انجام تک پہنچ سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سپریم کورٹ سے توقع ہے کہ اس معاملے کو اس طرح سلجھایا جائے جس میں تمام فریق متفق ہوں، سپریم کورٹ کے ججز آمنے سامنے آجائیں تو پارلیمنٹ کا اپنا کردار ادا کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔
واضح رہے کہ 2 روز قبل (27 مارچ) کو ہونے والی پہلی سماعت کے اختتام پر عدالت نے وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اگلے روز صبح ساڑھے 11 بجے تک جواب طلب کرکے سماعت ملتوی کردی تھی۔
سماعت کے بعد جاری ہونے والے تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات ملتوی کرنے کا آرڈر چیلنج کیا، پی ٹی آئی کے مطابق الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات ملتوی کرنے کا کوئی قانونی اور آئینی اختیار نہیں۔
تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ’بروقت عام انتخابات کا ایمانداری، منصفانہ اور قانون کے مطابق انعقاد جمہوریت کے لیے ضروری ہے، انتخابات میں تاخیر شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق متاثر کرنے کے مترادف ہے‘۔
سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ ’تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں، الیکشن کمیشن درخواست میں اٹھائے گئے اہم قانونی اور حقائق پر مبنی سوالات کا جواب دے‘۔
گزشتہ روز (28 مارچ) سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ ’کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے، یہاں آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے؟‘
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہوگا‘۔
دوران سماعت انتخابات کے انعقاد کے لیے فنڈز کی عدم دستیابی کا معاملہ زیر بحث آیا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’انتحابات کرانے کے لیے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا دیا جائے تو انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے، حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے‘۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا تھا کہ ’فوج کی نقل و حرکت پر بھی اخراجات ہوتے ہیں، کیا یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل نہیں کیا جاسکتا، دہشت گردی کا مسئلہ 90 کی دہائی سے ہے، کیا نوے کی دہائی میں الیکشن نہیں ہوئے، کئی سیاسی لیڈرز کی جانیں قربان ہوئی، پیپلز پارٹی کی سربراہ کی شہادت بڑا سانحہ تھا، ان تمام حالات کے باوجود انتحابات ہوتے رہے ہیں، دوسری جنگ عظیم میں بھی انتحابات ہوئے تھے‘۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی تھی۔ واضح رہے کہ 23 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو شیڈول پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کو ملتوی کردیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبر کو ہوں گے، آئین کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابی شیڈول واپس لیا گیا اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ اس وقت فی پولنگ اسٹیشن اوسطاً صرف ایک سیکیورٹی اہلکار دستیاب ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر کمی اور ’اسٹیٹک فورس‘ کے طور پر فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
فیصلے کی تفصیل کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس صورت حال میں الیکشن کمیشن انتخابی مواد، پولنگ کے عملے، ووٹرز اور امیدواروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے متبادل انتظامات کرنے سے قاصر ہے۔
مزید کہا گیا تھا کہ وزارت خزانہ نے ’ملک میں غیر معمولی معاشی بحران کی وجہ سے فنڈز جاری کرنے میں ناکامی‘ کا اظہار کیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے نشان دہی کی تھی کہ الیکشن کمیشن کی کوششوں کے باوجود ایگزیکٹو اتھارٹیز، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پنجاب میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں انتخابی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل نہیں تھیں۔
الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے ردعمل میں 23 مارچ کو پی ٹی آئی نے پنجاب میں 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں 25 مارچ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔
خیال رہے کہ رواں ماہ ہی الیکشن کمیشن نے 30 اپریل بروز اتوار پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات پر پولنگ کے لیے شیڈول جاری کر دیا تھا۔
3 مارچ کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات 30 اپریل بروز اتوار کرانے کی تجویز دی تھی۔ایوان صدر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت نے تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ تاریخوں پر غور کرنے کے بعد کیا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز کی مقررہ مدت میں کرائے جائیں، تاہم عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو اجازت دی تھی کہ وہ پولنگ کی ایسی تاریخ تجویز کرے جو کہ کسی بھی عملی مشکل کی صورت میں 90 روز کی آخری تاریخ سے ’کم سے کم‘ تاخیر کا شکار ہو۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ صدر مملکت اور گورنرز الیکشن کمیشن پاکستان کی مشاورت سے بالترتیب پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تاریخیں طے کریں گے۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں بالترتیب 14 اور 18 جنوری کو تحلیل ہوئیں، قانون کے تحت اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کرانا ہوتے ہیں۔
اس طرح 14 اپریل اور 17 اپریل پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کی آخری تاریخ تھی لیکن دونوں گورنرز نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ کی تاریخ مقرر کرنے کی تجویز ملنے کے بعد انتخابات کی تاریخیں طے کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کو اسٹیک ہولڈرز سے مشورے کا کہا تھا۔