انہوں نے کہا کہ ہم جب چاہیں خود مختار ڈیفالٹ کو روک سکتے ہیں، ہمیں صرف عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ضرورت ہے،7 ارب ڈالر کے قرض کے پروگرام کی بحالی میں تاخیر نے معیشت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
آصف قریشی نے نے قرض کے پروگرام کی فوری بحالی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ ہم ابھی تک اس نکتے پر نہیں پہنچے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو’۔
بانڈز کی عالمی مارکیٹ میں اس وقت پاکستان کے آٹھ روایتی اور اسلامی بانڈز کی تجارت ہو رہی ہے، ڈالر کے غلبے والے یہ تمام بانڈز بھاری رعایت پر تجارت کرتے ہیں، یعنی ان کی مارکیٹ کی قیمتیں ان کی اصل قیمتوں سے کم ہیں۔
پیر کو ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 10 سالہ پاکستان گورنمنٹ انٹرنیشنل بانڈ، جو اپریل 2024 میں میچیوز ہونے والا ہے، ایک ڈالر کے مقابلے میں 52.4 سینٹ پر ٹریڈ ہوا، آسان الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ قرض کا یہ آلہ اپنی قیمت کے صرف 52.4 فیصد پر ٹریڈ کر رہا ہے۔
نتیجے کے طور پر، بانڈ کی پیداوار، جو ثانوی مارکیٹ میں اس کی قیمت کے برعکس متناسب ہے، 102٫79 فیصد پر پہنچ گئی۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی بانڈز اور سکوک کے ذریعے قرض لینے کا حصہ پاکستان کے عوامی بیرونی قرضوں میں نسبتاً کم ہے۔
مارچ تک 96 ارب 30 کروڑ ڈالر کے مجموعی سرکاری بیرونی قرضوں میں ان کی تعداد صرف 8.1 فیصد یا 7 ارب 80 کروڑ ڈالر تھی۔
اس کے برعکس، بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر واجب الادا کثیر جہتی قرضے کا حصہ 38.5 فیصد یا 37 ارب ڈالر تھا۔
خودمختار قرضوں پر بڑھتی ہوئی پیداوار کو آنے والے ڈیفالٹ کے ناقابل تردید اشارے کے طور پر کیوں نہیں لیا جا سکتا اس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ بہت سے ممالک جن کی کارکردگی زیادہ خراب ہے بین الاقوامی منڈی میں اب بھی اپنا سر پانی سے اونچا رکھے ہوئے ہیں۔
مثال کے طور پر تیونس کے پیش کردہ بانڈز کا امریکی ٹریژری پر پھیلاؤ پاکستانی بانڈ سے زیادہ ہے۔
اسی طرح، گھانا اور بیلاروس, وہ ممالک جو پہلے سے ہی دیوالیہ ہیں، کے جاری کردہ بانڈز پاکستانی بانڈز سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ بانڈ کی پیداوار اس بات کا واحد اشارہ نہیں ہے کہ آیا کوئی ملک ڈیفالٹ ہونے جا رہا ہے۔