لاہور: (سچ خبریں) پی ٹی آئی پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد کو لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت حراست میں لی گئی پارٹی کی 17 دیگر خواتین کارکنوں کے ساتھ رہائی کے حکم کے چند گھنٹے بعد ہی دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق رات گئے ہوئی پیش رفت میں ڈاکٹر یاسمین راشد کو ایک بار پھر ’گرفتار‘ کرلیا گیا، اس بار ان کے خلاف لاہور کے تین مختلف تھانوں میں درج مقدمات ہیں۔
تاہم ان کی طبی حالت کے پیش نظر پولیس نے انہیں سروسز ہسپتال میں رکھنے کا فیصلہ کیا، جہاں عدالت کی جانب سے رہائی کے حکم کے بعد انہیں کوٹ لکھپت جیل سے لے جایا گیا تھا۔
پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کی نظر بندی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صفدر سلیم شاہد نے ایم پی او کے تحت زیر حراست 18 خواتین کو کسی فوجداری مقدمے میں مطلوب نہ ہونے پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
قبل ازیں درخواست گزاروں کی جانب سے ایڈووکیٹ سکندر ذوالقرنین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حراست میں لیے گئے افراد میں بار کی ذمہ داران اور گھریلو خواتین بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ نہ تو کسی سیاسی جماعت کی سرگرم رکن ہیں اور نہ ہی کسی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل غلام سرور نہنگ نے درخواستوں کی مخالفت کی اور کہا کہ ضلعی حکومت نے ریاست کے خلاف پرتشدد مظاہروں میں ملوث افراد کی نظر بندی کے احکامات قانونی طور پر جاری کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ درخواست گزاروں نے قانون کے پہلے حل سے فائدہ نہیں اٹھایا اور براہ راست عدالت سے رجوع کیا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ زیر حراست خواتین میں سے تین اپنے خاندان میں اموات کی وجہ سے پہلے ہی رہا ہو چکی ہیں۔
ایڈووکیٹ احمد اویس نے مؤقف اختیار کیا کہ ڈاکٹر یاسمین ایک بزرگ اور کینسر سے متاثر ہونے والی خاتون ہیں۔
لا آفیسر نے کہا کہ ڈاکٹر یاسمین نے احتجاج کی قیادت کی اور اپنی پارٹی کے کارکنوں کو تشدد پر اکسایا۔
تاہم جج نے ایم پی او کے سیکشن 3 کے تحت جاری کردہ غیر قانونی نوٹیفکیشن کو معطل کرتے ہوئے حکومت کو باقی زیر حراست افراد کو رہا کرنے کا حکم دیا، انہوں نے درخواستوں پر حکومت سے 22 مئی تک جواب بھی طلب کیا۔
اس سے قبل پی ٹی آئی کی سابق رکن اسمبلی عالیہ حمزہ کے شوہر نے حکومت کی جانب سے جاری کردہ اپنی اہلیہ کی نظر بندی کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
درخواست گزار حمزہ جمیل ملک نے مؤقف اختیار کیا کہ 10 مئی کو پولیس ان کے گھر میں گھسی اور ان کی اہلیہ کو اغوا کر لیا۔
انہوں نے کہا کہ بعد میں ضلعی حکومت نے 11 مئی کو پی ٹی آئی رہنما کی ایم پی او کے تحت نظر بندی کا حکم جاری کیا۔
انہوں نے عدالت سے کہا کہ نظر بندی کے حکم کو کالعد قرار دیا جائے اور حکومت کو انہیں رہا کرنے کی ہدایت کی جائے۔