?️
اسلام آباد: (سچ خبریں) نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پارلیمان سے باہر نہ آتے تو نیب ترامیم پر بحث ہوتی، ان کے کنڈکٹ پر یہی اعتراض ہے۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جنسی ہراسانی سمیت ہمارے کئی قوانین میں خامیاں موجود ہیں، کیا عدالت بین الاقوامی کنونشنز کے مطابق قانون سازی کی ہدایت کر سکتی ہے؟ اگر عدالت ہدایات دے بھی تو پارلیمان کس حد تک ان کی پابند ہوگی؟
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کئی مقدمات میں پارلیمان کو ہدایات جاری کر چکی ہے، عدالت نے کئی قوانین کی تشریح بین الاقوامی کنونشنز کے تناظر میں کی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عالمی کنونشن میں نجی شخصیات کی کرپشن کا بھی تذکرہ ہے، نجی شخصیات میں کنسلٹنٹ، سپلائر اور ٹھیکیدار بھی ہوسکتے ہیں، نجی شخصیات اور کمپنیاں حکومت کو غلط رپورٹس بھی دے سکتی ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ پنجاب بینک کیس میں بھی نجی شخصیات پر 9 ارب کی کرپشن کا الزام تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کسی دوسرے ملک نے عالمی کنونشن کے مطابق کرپشن قانون بنایا ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کسی دوسرے ملک کے کرپشن قانون کا جائزہ نہیں لیا، عالمی کنونشن میں درج جرائم پاکستانی قانون میں شامل تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دنیا نے کرپشن کے خلاف عالمی کنونشن 2003 میں جاری کیا، مثبت چیز یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن کے خلاف قانون 1947 سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت غلط قانون بنائے تو عوام اسے ووٹ نہیں دیں گے، جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کے احتساب کا یہی طریقہ دیا گیا ہے، دوسری حکومت آکر قانون تبدیل کر سکتی ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ترامیم کے بعد نیب، قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف رہ گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مالیاتی پالیسی میں معاشی بہتری کے لیے پارلیمان قانون نرم کرے تو عدالت کیا کر سکتی ہے؟ خودکشی پر فوجداری کارروائی کے خلاف بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں، کیا خودکشی پر فوجداری کارروائی ختم کرنے پر عدالت مداخلت کر سکتی ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمان میں بحث ہوتی تو شاید خامیوں کی نشاندہی ہوجاتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عمران خان کے کنڈکٹ پر یہی تو اعتراض ہے، عمران خان پارلیمان سے باہر نہ آتے تو نیب ترامیم پر بحث ہوتی۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پی ٹی آئی، سینیٹ میں موجود تھی وہاں بحث کیوں نہیں کرائی گئی؟ نیب قانون ایسا بنا دیا گیا ہے کہ جرم ثابت ہی نہیں ہوسکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ترامیم میں کہاں لکھا ہے کہ ہر کوئی احتساب سے بالاتر ہے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ فوجداری مقدمات میں عوام کے بنیادی حقوق شامل ہوتے ہیں، کرپشن مقدمات میں تو پیسہ ہی عوام کا شامل ہوتا ہے، کرپشن کے خلاف عالمی کنونشن میں کم سے کم معیار دیا گیا ہے، کنونشن کے مطابق انسداد کرپشن قانون کو مزید سخت کیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان کم سے کم معیار کی پابند نہیں ہے، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ عالمی کنونشن کے پابند ہونے پر 1994 میں فیصلہ دے چکی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کوئی ایسی شق ہے جس کے تحت ’میوچوئل لیگل اسسٹنس‘ کو قابل قبول کہا گیا ہو؟
خواجہ حارث نے کہا کہ قابل قبول شواہد کے حوالے سے باقاعدہ قانون ہے، ایک طریقہ کار کے تحت آنے والے قوانین کو ہی مانا جاتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کوئی کنونشن مقامی قانون میں خامیوں کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، کیا ترامیم سے پہلے قانون کنونشن سے مکمل مطابقت رکھتا تھا؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ کنونش کے قوانین مقامی قانون میں شامل تھے لیکن ان ترامیم کے ذریعے ’ڈی ٹریک‘ کردیا گیا؟
عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ اب یہ ایک کمزور قانون ہے، ایسے دنیا میں ہماری ساکھ نہیں رہے گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ ساری تو اقوام متحدہ میں کرنے والی باتیں ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کا مطلب ہے کہ ترامیم جرائم کو دوبارہ مرتب کرنے کے لیے کی جاتی ہیں؟
خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت کے سامنے رکھوں گا کہ ایک کیس میں نیب نے ایک ارب کی پہلی قسط لی لیکن اب سب ختم ہوگیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دیکھا جائے تو بین الاقوامی کنونش میں بھی سزائیں مقامی قوانین پر چھوڑ دی گئیں۔
اس کے ساتھ ہی عدالت نے نیب قانون میں حالیہ ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر مزید سماعت 8 نومبر تک ملتوی کردی۔
اس سے قبل 19 اکتوبر کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے پی ٹی آئی وکیل سے استفسار کیا تھا کہ آپ کو اپنے دلائل مکمل کرنے کے لیے مزید کتنا وقت درکار ہے، جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا تھا کہ میں 4 سماعتوں میں دلائل مکمل کر لوں گا۔
مشہور خبریں۔
کیا انڈیا کا نام بدل کر بھارت کرنا سنگین خطرہ ہے؟
?️ 25 ستمبر 2023سچ خبریں: انڈیا کا نام بدل کر بھارت کرنے سے پہلی نظر
ستمبر
نیپرا نے الیکٹرک وہیکلز چارجنگ اسٹیشنز کی حکومتی پالیسی پر سوالات اٹھا دیے
?️ 12 فروری 2025اسلام آباد: (سچ خبریں) نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے الیکڑک
فروری
اردن اسرائیل کا نیا سیکیورٹی چیلنج
?️ 3 مارچ 2025سچ خبریں: اسرائیل ہیوم اخبار کی رپورٹ کے مطابق اردن کے ساتھ
مارچ
حزب اللہ کی مخالفت اور سعودی حکومت کا شہری بننے والا لبنانی عالم کون ہے؟
?️ 19 نومبر 2021سچ خبریں: سعودی اپوزیشن کے ایک مصنف ترکی الشہلوب نے لبنان کے
نومبر
مہنگائی، بجلی کے بھاری بلوں کےخلاف ہڑتال کے سبب صنعتی پیداوار جزوی طور پر متاثر
?️ 3 ستمبر 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) جماعت اسلامی کی جانب سے گزشتہ روز (ہفتے کو)
ستمبر
حکومت میں شمولیت کے حوالے سے ’ تذبذب ’ کا شکار پیپلز پارٹی کا اہم اجلاس آج پھر ہوگا
?️ 13 فروری 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی
فروری
کابل فتح کرنے کے بعد طالبان کا اہم اعلان، افغان قوم کی امن و سلامتی کے لیئے پوری کوشش کریں گے
?️ 16 اگست 2021کابل (سچ خبریں) طالبان کی جانب سے کابل کو فتح کرنے کے بعد
اگست
امید ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول کا معاہدہ جلد طے پا جائے گا، گورنر سٹیٹ بینک
?️ 21 مارچ 2025اسلام آباد: (سچ خبریں) گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمدنے کہا ہے کہ
مارچ