لاہور (سچ خبریں) معاون خصوصی احتساب شہزاد اکبر نے جہانگیر ترین کے بیانات پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جہانگیرترین ہم میں سے ہیں اگر ان کے تحفظات ہیں تو وہ دور ہونے چاہیے لیکن یہ کہنا کہ فرد واحد کو نشانہ بنایا جارہا ہے ایسا نہیں ہے۔
لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ جہانگیرترین ہم میں سے ہیں اگر ان کے تحفظات ہیں تو وہ دور ہونے چاہیے لیکن یہ کہنا کہ فرد واحد کو نشانہ بنایا جارہا ہے ایسا نہیں ہے۔
علاوہ ازیں شہزاد اکبر نے کہا کہ ایوب خان کے دور سے چینی کا مسئلہ چلارہا ہے، قیمتوں میں اضافہ کوئی نہیں بات نہیں لیکن گزشتہ 5-4 دہائیوں میں جو ایک کام نہیں ہوا ہوا چینی کی پیداواری لاگت، منافع کتنا ہونا چاہیے اور صارف کو کتنے روپے فی کلو چینی دستیاب ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ چینی سے متعلق ایک قانون1998 اور 1977 کا ہے جبکہ پچھلی ایک دہائی میں عدالتوں نے حکومتوں پر زور دیا کہ اشیا ضروریہ کی قیمت اور اس کی ترسیل کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ چینی کا مصنوعی بحران ختم کرنے کے لیے چینی کی قیمت مقرر کرنا ضروری ہےاس ضمن میں انہوں نے مزید وضاحت دی کہ چین چار مہینوں میں تیار ہوجاتی ہے اور اس میں دو فیکٹر گنا کس قیمت پر خریدا گیا اور ریکوری کی شرح کتنی ہے بہت اہم ہوتے ہیں۔
شہزاد اکبر نے کہا جب ہم نے ایکس مل قیمت 80 روپے مقرر کی اس میں دو ڈیٹا سیٹ تھے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ڈیٹا شوگر ملز ایسوسی ایشن اور کین کمشنر یا انڈسٹری فراہم کرتی ہیں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو دیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے سرکاری ڈیٹا کے بجائے شوگر ملز ایسو سی ایشن کے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق ایکس مل قیمت مقرر کی۔
شہزاد اکبر نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ ایکس مل قیمت مقرر کرتے ہوئے شوگر ملز کے تحفظات کو دور نہیں کیا گیاان کا کہنا تھا کہ اس میں ان کا 15 فیصد سے زائد منافع کی شرح بھی رکھی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شوگر ملز یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ حکومت چینی کی قیمت مقرر نہیں کرسکتی کیونکہ ہمارے اقدام کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔
شہزاد اکبر نے بتایا کہ ایکس مل قیمت کے بعد شوگر ملز کو ایف آئی اے، ایف بی آر سمیت دیگر ادارے تنگ نہیں کریں گے کیونکہ قیمت مقرر ہوگی تو شفافیت برقرار رہے گی ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومتی ڈیٹا پر چینی کی قیمت مقرر کی جاتی تو مزید 5 سے 6 روپے کم ہوتی۔
شہزاد اکبر نے بتایا کہ ہرگز ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک گروہ، شوگر ملز یا شخص کو نشانہ بنایا جارہا ہے، احتساب کا عمل سب کے ساتھ جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شوگر کمیشن رپورٹ کے تناظر میں کابینہ نے تین ہدایات جاری کیں، کرمنل نوعیت کے معاملے کو نیب اور ایف آئی اے کو بھیجی گئیں جبکہ انتظامی نوعیت کے مسائل کے بارے میں صوبوں کو مطلع کیا گیا اور آخری کا تعلق ریفارمز ہیں جس میں ٹریک کا نظام متعارف کرایا گیا۔
شہزاد اکبر نے جے ڈبلیو ڈی سے متعلق کہا کہ جہانگیر ترین کا منی لانڈرنگ کا معاملہ 7-8 ارب روپے کا تھا لیکن شریف گروپ کو 25 ارب روپے کا منی لانڈرنگ کا کیس رجسٹرڈ ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام شوگر ملز کے اعلیٰ عہدیداروں کا انٹرویو کیا گیا تو سٹہ بازی والا معاملہ نکلاانہوں نے بتایا کہ ان 10 ایف آئی آر میں 13 ملز یا گروپ بھی زیر تفتیش ہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ہمراہ جہانگیرترین کی میڈیا سے گفتگو سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے زور دیا کہ ملزم اور مجرم میں فرق ہوتا ہے جبکہ پہلے مرحلے میں ہی واضح کردیا تھا کہ احتساب کا عمل سب کے ساتھ ہوگا جس میں دوست بھی شامل ہیں اور دوسرے بھی۔
انہوں نے کہا کہ جہانگیرترین ہم میں سے ہیں اگر ان کے تحفظات ہیں تو وہ دور ہونے چاہیے لیکن یہ کہنا کہ فرد واحد کو نشانہ بنایا جارہا ہے ایسا نہیں ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ’ناراض‘ رہنما جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ شوگر کمیشن انکوائی کے بعد سے خاموش بیٹھا ہوں، ایک سال گزر چکا ہے لیکن ایک لفظ ادا نہیں کیا، میری وفاداری کا ثبوت اور کس کو چاہیے؟
لاہور میں بینکنگ جرائم کورٹ میں پیشی کے بعد عدالت کے باہر پی ٹی آئی کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری وفاداری کا امتحان لیا جارہا ہے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ میری بات کا جواب دیا جائے۔