اسلام آباد: (سچ خبریں) آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے سی ڈی اے کی جانب سے آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل فواد اسد اللہ کو نئے سیکٹر میں دو پلاٹوں کی الاٹمنٹ پر اعتراض کرتے ہوئے اسے بے قاعدگی قرار دیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ سی ڈی اے اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت کے باوجود بحریہ ٹاؤن سمیت نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں غیرقانونی تعمیرات کو مسمار کرنے میں ناکام رہا۔
مالی سال 22-2021 کی آڈٹ رپورٹ میں انٹیلی جنس بیورو کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ میں بے ضابطگی کی نشاندہی کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سی ڈی اے نے سی ڈی اے لینڈ ایکوزیشن ریگولیشنز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل فواد اسد اللہ کو لینڈ شیئرنگ کے تحت دو پلاٹ الاٹ کیے۔
سی ڈی اے لینڈ ایکوزیشن اینڈ ری ہیبلیٹیشن ریگولیشنز 2007 کے پیرا 5 میں کہا گیا ہے کہ 4 کنال سے کم یا 4 کنال سے زیادہ اراضی رکھنے والے زمین کے مالکان/متاثرین اپنی زمین کو زمین کی تقسیم کی پالیسی کے لیے پول کر سکتے ہیں، رپورٹ میں کہا گیا کہ متاثرہ افراد کے پاس چار کے ضرب سے زائد اور زائد اراضی رکھنے والے کے پاس پالیسی کے مطابق وہی تقسیم کرنے کا اختیار ہوگا یا ڈپٹی کمشنر سی ڈی اے کی طرف سے مقرر کردہ مارکیٹ ریٹ کی بنیاد پر ادائیگی حاصل کرنے کا اختیار ہوگا اور صرف پولنگ کی بنیاد پر ایسا کرنے کی اجازت ہو گی۔
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ڈائریکٹر لینڈ اینڈ ری ہیبلیٹیشن سی ڈی اے نے لینڈ شیئرنگ پالیسی 2007 کے تحت اسلام آباد کے سیکٹر سی-14 میں ایک کنال رقبے کے دو پلاٹ الاٹ کیے ہیں۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق ساڑھے تین کروڑ روپے کا پلاٹ فواد اسد اللہ کو ان کی اور ایک عمران احمد کی مشترکہ ملکیت میں زمین کی تقسیم کے تحت پالیسی کے تحت پولنگ کے ذریعے الاٹ کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ لینڈ شیئرنگ پالیسی 2007 کے مطابق متعدد پولنگ کے بجائے صرف ایک پولنگ کی اجازت تھی، اس کے نتیجے میں متعدد پولنگ سسٹم کے ذریعے پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ ہوئی، اس بے ضابطگی کی نشاندہی گزشتہ سال جون میں سی ڈی اے کو کی گئی تھی لیکن اتھارٹی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ آڈیٹر جنرل آفس اور سی ڈی اے کے حکام پر مشتمل ڈپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی (ڈی اے سی) نے 10 نومبر 2021، 10 دسمبر 2021 کو اجلاس بلائے، جس کے بعد 22 دسمبر 2021، دسمبر 31، 2021، 7 جنوری، 2022 اور 20 جنوری 2022 کو یاد دہانیاں کی گئیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
آڈیٹرز نے بے ضابطگی کے ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف جلد کارروائی کرنے کے علاوہ ذمہ داری کے تعین کے لیے ایک انکوائری کی سفارش کی۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ سی ڈی اے بحریہ ٹاؤن فیز ون میں تجاوزات کو مسمار کرنے میں ناکام رہا ہے اور مجرم اہلکاروں کے خلاف قانونی راستہ اختیار کرنے سے بھی گریز کیا ہے۔
اس سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 2014 کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا جس میں سی ڈی اے حکام کو تجاوزات ہٹانے اور شہری ایجنسی اور ہاؤسنگ سوسائٹی کے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت جاری کی گئی تھی۔
آڈٹ نے مشاہدہ کیا کہ تین سال گزر جانے کے باوجود بلڈنگ کنٹرول ڈائریکٹوریٹ غیرقانونی تعمیرات کی خلاف ورزی کا صحیح ڈیٹا اکٹھا کرنے میں ناکام رہا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سی ڈی اے نے آڈیٹر جنرل کے دفتر کو جواب نہیں دیا جبکہ آڈٹ اعتراضات محکمانہ آڈٹ کمیٹی کے بار بار ہونے والے اجلاسوں میں حل نہیں ہو سکے۔