اسلام آباد(سچ خبریں) اب تک امریکہ اور پاکستان کے مابین تعلقات سرد مہری سے دوچار رہے ہیں تاہم جنیوا میں امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور پاکستان کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے ملاقات کی اور مشترکہ طور پر جاری کردہ ایک بیان میں ’عملی تعاون کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا‘۔
جوبائیڈن انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ دونوں ممالک کے مابین پہلا اعلی سطح کا براہ راست رابطہ تھا۔سیکریٹری خارجہ انٹونی جے بلنکین اس سے قبل اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے بھی دو مرتبہ بات چیت کر چکے ہیں۔
اسی طرح سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن بھی آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے تبادلہ خیال کرچکے ہیں۔تاہم امریکی صدر جوبائیڈن اور وزیر اعظم عمران خان کے مابین اب تک کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔
علاوہ ازیں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سربراہی اجلاس میں ابتدائی طور پر پاکستان کو مدعو نہیں کیا گیا تھا لیکن پاکستان باہمی روابط اور تعاون کو بڑھانے پر زور دیتا رہا۔
سفارتی ذرائع کے مطابق دو طرفہ تعلقات این ایس اے کے ’جنیوا اجلاس‘ کے ایجنڈے میں ایک اہم نکتہ تھے لیکن بھارت، افغانستان اور معاشی تعاون سمیت دیگر امور جو تعلقات کو بھی متاثر کررہے تھے، ان پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے شکایت کی تھی ابتدائی دنوں امریکا کی نئی انتظامیہ پاکستان کو خاطر خواہ وقت نہیں دے رہی تھی۔
جس پر ان کے امریکی ہم منصب نے دعوی کیا کہ کووڈ 19 وبائی بیماری کے باعث ایسا ہوا ہے کیونکہ انتظامیہ داخلی امور پر زیادہ توجہ دے رہی تھی۔
معید یوسف نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ کل امریکی این ایس اے جیک سلیوان سے مل کر خوشی ہوئی، پاکستان اور امریکی وفود نے باہمی دلچسپی کے دوطرفہ، علاقائی اور عالمی امور پر مثبت تبادلہ خیال کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ دونوں فریقین نے دوطرفہ تعلقات میں تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
دوسری جانب امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان ایملی ہورن کی جانب سے جاری کردہ ایک مختصر بیان میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے متعدد دو طرفہ، علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا۔انہوں نے کہا کہ عملی تعاون کو آگے بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال اور مزید بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
امریکا کی جانب سے توقع ہے کہ وہ اقتصادی تعاون کو بڑھائے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرے۔اسی طرح کووڈ 19 وبائی امراض اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مزید تعاون کی توقع اسلام آباد بھی کررہا ہے۔
واشنگٹن افغانستان سے فوجیوں کے مکمل انخلا کا خواہش مند ہے اور پاکستان سے چاہتا ہے کہ وہ پرتشدد کارروائیوں ختم کرنے کے لیے طالبان پر زور دے۔
دونوں رہنماؤں کی ملاقات ایسے وقت پر ہوئی ہے جب حال ہی میں پینٹاگون نے انکشاف کیا کہ پاکستان نے امریکی فوج کو اپنی فضائی حدود کے استعمال اور زمینی حدود تک رسائی دے دی تاکہ وہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو یقینی بنا سکے۔
جس کے فوراً بعد ہی دفتر خارجہ نے امریکا کو پاکستانی سرزمین کے استعمال کی اجازت دینے کے حوالے سے میڈیا میں زیر گردش خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے امریکا کو فوج یا فضائیہ کا کوئی اڈہ نہیں دیا۔