اسلام آباد(سچ خبریں) الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر نائب صدر اور وزیر ریلوے اعظم خان سواتی کو 21 اکتوبر کو کمیشن کے خلاف ان کے ریمارکس کی وضاحت کے لیے طلب کرلیا۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ یہ فیصلہ چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سکندر سلطان راجا کے زیر صدارت الیکشن کمیشن کے اجلاس میں کیا گیا جو اس سے قبل کے اجلاس کے تسلسل میں تھا جس میں دو وفاقی وزرا، اعظم سواتی اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کےت خلاف ان کے الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریمارکس پر ای سی پی کے نوٹسز کا وقت پر جواب نہ دینے پر قانونی آپشنز پر غور کے لیے طلب کیا گیا تھا۔
اعظم سواتی اور فواد چوہدری کو 16 ستمبر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے ان سے کہا تھا کہ وہ ان الزامات کے 7 روز کے اندر ثبوت فراہم کریں جو انہوں نے ای سی پی اور سی ای سی کے خلاف لگائے تھے۔
ایک ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر نے نوٹس کو نظر انداز کر دیا تھا جبکہ فواد چوہدری نے نوٹس کا جواب دینے کے لیے مزید 6 ہفتے مانگے تھے تاہم انہیں تین ہفتوں کی مہلت دی گئی تھی جو 19 اکتوبر کو ختم ہوگی۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب الیکشن کمیشن کو حکمراں جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے سخت تنقید اور سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مارچ میں سینیٹ انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی پارٹی پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ وہ کیچڑ اچھالنا بند کرے اور اگر اسے آئین پر کوئی اعتراض ہے تو ثبوت لے کر آئیں۔
الیکشن کمیشن پر ایک نئے حملے میں وزیر اعظم سواتی نے 10 ستمبر کو الیکشن کمیشن پر ’رشوت لینے اور دھاندلی‘ کا الزام لگانے کے بعد کہا تھا کہ ایسے اداروں کو آگ لگا دی جانی چاہیے۔انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن حکومت کا مذاق اڑا رہا ہے اور جمہوریت کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ الزامات صرف چند روز بعد لگائے گئے تھے جب ای سی پی نے حکومت کے آئندہ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں متعارف کرانے کے یکطرفہ فیصلے پر اعتراض کیا تھا۔
ای سی پی پر ایک تازہ حملہ اسی شام شروع کیا گیا جب وفاقی وزیر فواد چوہدری، اعظم سواتی اور وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے ای سی پی پر اپوزیشن کا ہیڈ کوارٹر بننے کا الزام لگایا اور الزام لگایا کہ سی ای سی اپوزیشن کے ایک ’ترجمان‘ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
فواد چوہدری نے الزام لگایا تھا کہ سی ای سی نے ووٹنگ مشینوں پر ’احمقانہ‘ اعتراضات کی سیاست کھیلی ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر وہ سیاست کرنا چاہتے ہیں تو رد عمل آئے گا۔
الیکشن کمیشن نے بالآخر 16 ستمبر کو فواد چوہدری اور اعظم سواتی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے الزامات اور بیانات کے حوالے سے ثبوت مانگے تھے۔
اگلے روز حکومت نے تنقید کو بڑھا دیا اور سی ای سی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور سواتی نے وزیر اعظم کے معاون بابر اعوان کے ساتھ سی ای سی کی تقرری پر سوالات اٹھائے تھے۔
دریں اثنا ای سی پی نے انتخابی فہرستوں پر نظرثانی کے عمل کا ہفتہ وار بنیادوں پر جائزہ لینے کا فیصلہ کیا کیونکہ ای سی پی کے ایک عہدیدار کے مطابق ووٹروں کی گھر گھر تصدیق کا عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔
عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ شناختی کارڈ میں ووٹرز کے نامکمل پتے اور غلط مردم شماری کے بلاکس اور نقشوں کی وجہ سے الجھن پیدا ہوئی ہے۔
تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ 2018 کے عام انتخابات اور اس کے بعد کے ضمنی انتخابات بغیر کسی تنازع کے ایک ہی انتخابی فہرستوں کی بنیاد پر ہوئے تھے۔
منگل کے اجلاس میں تمام صوبائی الیکشن کمشنروں نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی جنہوں نے سی ای سی کو انتخابی فہرستوں کی نظر ثانی اور گھر گھر تصدیق کی مہم کے بارے میں آگاہ کیا۔
سی ای سی نے صوبائی الیکشن کمشنرز کو ہدایت کی کہ وہ ووٹر لسٹوں کی نظر ثانی کے عمل کی ذاتی طور پر نگرانی کریں تاکہ کسی بھی ابہام کی صورت میں پاکستان ادارہ شماریات اور متعلقہ ضلعی انتظامیہ کے ساتھ رابطہ قائم کیا جا سکے تاکہ درست مردم شماری کے بلاک کوڈز کا تعین یقینی بنایا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ ووٹر فہرستوں سے مرنے والے ووٹروں کے نام حذف کرنے کو بھی یقینی بنایا جائے۔