اسلام آباد:(سچ خبریں) وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے قومی اقتصادی سروے برائے مالی سال 23-2022 پیش کردیا جس میں واضح طور پر دیکھا گیا کہ صنعتی شعبہ 3 فیصد تک سکڑ گیا۔
اسلام آباد میں دیگر وزرا کے ہمراہ اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اقتصادی سروے کا موضوع برآمدات، ایکویٹی، امپاورمنٹ، ماحولیات اور توانائی ہے۔
انہوں نے بتایا اقتصادی سروے 17 ابواب پر مشتمل ہے، جس کا مقصد گزشتہ چند برسوں میں ہوئی پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی کو واپس ترقی کی جانب لے جانا ہے۔
مالی سال 2023 کے دوران اقتصادی ترقی کی شرح نمو 0.29 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال 6.1 فیصد تھی۔زرعی شعبے کی شرح نمو 1.55 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال کے دوران 4.27 فیصد تھی، صنعت کی شرح نمو منفی 2.94 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال کے دوران 6.83 فیصد تھی۔معیشت کے حجم میں 27.1 فیصد کا اضافہ ہوا اور یہ 84 ہزار 658 ارب روپے رہا جو گزشتہ مالی سال کے اس عرصے کے دوران 66 ہزار 624 ارب روپے تھا۔فی کس آمدنی ایک ہزار 568 ڈالر رہی جو گزشتہ مالی سال کے دوران ایک ہزار 765 ڈالر تھی، یوں اس میں 11.2 فیصد کی کمی ہوئی۔مجموعی سرمایہ کاری میں 10.2 فیصد کا اضافہ ہوا جو جی ڈی پی کی 13.6 فیصد رہی جبکہ گزشتہ سال اس میں 29.1 فیصد کا اضافہ ہوا تھا جو جی ڈی پی کا 15.7 فیصد تھا۔جولائی تا اپریل کے دوران ترسیلات زر 13 فیصد کی کمی کے ساتھ 22.7 ارب ڈالر ریکارڈ ہوئیں جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 26.1 ارب ڈالر تھیں۔رواں مالی سال کے ابتدائی 11 ماہ کے دوران درآمدات میں 29.2 فیصد کی کمی ہوئی اور یہ کم ہو کر 51.2 ارب ڈالر پر آگئیں جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے دوران 72.3 ارب ڈالر تھیںاسی طرح اس مدت میں برآمدات میں 12.1 فیصد کی کمی ہوئی اور یہ کم ہو کر 25.4 ارب ڈالر پر آگئیں جو گزشتہ مالی سال 28.9 ارب ڈالر تھیں۔نمو
وزیر خزانہ کی جانب سےفراہم کردہ دستاویزات کے مطابق پاکستان نے ختم ہونے والے مالی سال کے لیے مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو 0.29 فیصد حاصل کی، جس سے 5 فیصد کا ہدف بڑے مارجن سے حاصل نہیں ہوا۔
یہ معمولی نمو زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں بالترتیب 1.55 فیصد، منفی 2.94 فیصد، اور 0.86 فیصد رہی۔
سب سے زیادہ قابل ذکر کمی صنعتی شعبےکا 2.94 فیصد سکڑاؤ تھا، جو کہ 7.1 فیصد ترقی کے ہدف کے مقابلے میں تھا۔
دستاویزات کے مطابق پاکستان میں جولائی 2022 سے مئی 2023 تک کے 11 ماہ کے عرصے میں 28.2 فیصد مہنگائی ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 11 فیصد تھی۔
حکومت نے مالی سال 2023 کے لیے مہنگائی کا ہدف 11.5 فیصد رکھا تھا لیکن روپے کی قدر میں تیزی سے کمی، دفیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹیکس وصولی جولائی سے اپریل تک 16.1 فیصد بڑھ کر 56 کھرب 37 ارب 90 کروڑ روپے ہوگئی۔
ٹیکس کلیکشن ایک سال پہلے کی مدت میں 48 کھرب 55 ارب 80 کروڑ روپے تھی۔
گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت کی جانب سے 12 ماہ کی مدت کے لیے وصولی کا ہدف 74 کھرب 70 ارب روپے رکھا گیا تھا۔
سروے دستاویز سے پتا چلتا ہے کہ جولائی سے مارچ کے دوران پاکستان کی برآمدات 9.9 فیصد کم ہو کر 21 ارب ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 23 ارب ڈالر تھیں۔
دریں اثنا اسی مدت کے دوران درآمدات 43 ارب 70 کروڑ ڈالر رہیں جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 58 ارب 90 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 25.7 فیصد کی کمی کو ظاہر کرتی ہیں۔
یہ کمی بنیادی طور پر پالیسی میں سختی اور دیگر انتظامی اقدامات کی وجہ سے ہوئی ہے کیونکہ حکومت اپنے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔
اس کے نتیجے میں ملک کا تجارتی خسارہ نمایاں طور پر سکڑ کر جی ڈی پی کے 6 فیصد تک پہنچ گیا، جو کہ گزشتہ سال 10.4 فیصد تھا۔
کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس میں 74.1 فیصد بہتری آئی، جس نے جولائی تا مارچ مالی سال 2023 کے دوران 3.4 ارب ڈالر کا خسارہ ریکارڈ کیا جبکہ گزشتہ برس اسی مدت کے دوران خسارہ 13 ارب ڈالر تھا۔
اس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے ایک فیصد تک سکڑ گیا، جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران 4.7 فیصد تھا۔
دستاویز کے مطابق اس بہتری کے پیچھے اہم عنصر تجارتی خسارے میں 29.7 فیصد کمی تھی جو درآمدی ادائیگیوں میں جولائی تا مارچ میں 41.5 ارب ڈالر تک کمی سے ہوا اور گزشتہ سال یہ ادائیگیاں 52 ارب 70 کروڑ ڈالر تھیں۔
سروے میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 3.6 فیصد تک ’روک دیا گیا‘ جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں یہ خسارہ جی ڈی پی کا 3.9 فیصد تھا۔
سروے میں کہا گیا کہ یہ ’اخراجات کے محتاط انتظام اور مقامی وسائل کو متحرک کرنے کی ایک مؤثر حکمت عملی پر سختی سے عمل کرنے‘ سے حاصل ہوا۔
اقتصادی سروے کے مطابق پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے اخراجات جولائی تا مارچ کے عرصے میں 1.8 فیصد کی کمی سے 10 کھرب 14 ارب روپے تک پہنچ گئے جو گزشتہ سال 10 کھرب 32 ارب 70 کروڑ تھے۔
سروے میں مزید کہا گیا کہ آئندہ سال کے لیے پی ایس ڈی پی کی فنڈنگ 5 ایز فریم ورک کی حمایت کرنے والے منصوبوں، سیلاب کے بعد کی بحالی، بحالی اور تعمیر نو اور پاک۔چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پر مرکوز تھی۔
دستاویز میں کہا گیا کہ جولائی تا مارچ کے دوران وفاقی ترقیاتی فنڈ کے استعمال کی رفتار پہلی ششماہی کے لیے سہ ماہی اجرا کی کم حد اور کفایت شعاری کی وجہ سے کم ہونے کی وجہ سے ’نسبتاً سست‘ تھی۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ اگر یہ حکومت ذمہ داری نہ سنبھالتی تو نہ جانے ملک کہاں کھڑا ہوا تھا کیوں کہ ہماری حکومت آنے سے قبل آخری تیسری سہ ماہی میں غیر ملکی زرِمبادلہ میں بڑی کمی ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ معیشت میں جو گراوٹ ہو رہی تھی وہ رک چکی ہے، اب ہماری کوششیں اسے ترقی کے راستے پر لے جانا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ سال 2018 میں مالی خسارہ 5.8 فیصد تھا جو گزشتہ سال جب نئی حکومت نے ذمہ داری سنبھالی تو 7.9 فیصد پر پہنچ گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ تجارتی خسارہ 2018 میں 30.9 ارب ڈالر سے گزشتہ سال 39.1 ارب ڈالر جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 4.7 فیصد سے 17.5 ملین ڈالر تک جا پہنچا، غیر ملکی سرمایہ کاری 2.8 ارب ڈالر سے سکڑ کر 1.9 ارب ڈالر رہ گئی اور پبلک پالیسی ریٹ 6.5 فیصد سے پونے 14 فیصد ملا۔
ان کا کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے کا گردشی قرض ہر سال 129 ارب روپے کے حساب سے بڑھ رہا تھا جو 2018 میں 1148 ارب اور چار سال کی قلیل مدت میں 2 ہزار 467 ارب تک جا پہنچا یعنی اس میں 330 ارب سالانہ اضافہ ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ سال 2018 میں سرکاری قرض جی ڈی پی کے 63.7 فیصد تھا وہ 73.9 فیصد تک جاپہنچا جو بہت بڑا اضافہ ہے۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس وقت ریونیو کلیکشن کا بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں خرچ ہو رہا ہے جبکہ اسی ملک کی 2017 میں سود کی ادائیگی 18 سو ارب روپے سے کم تھی جو آج 7 ہزار ارب تک پہنچ چکی ہے۔
انہوں نے اس کی وجہ بدانتظامی، قرضوں کے انبار لگانے، پالیسی ریٹ میں اضافے کو قرار دیا جو غیر مستحکم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سب کچھ کے بعد تابوت میں آخری کیل جو ثابت ہوئی اس نے پاکستان کے بھروسے اور ساکھ کو متزلزل کر کے رکھ دیا، اگر آپ نے کوئی خود مختار وعدہ کیا ہے تو وہ کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہوتا بلکہ پاکستان کا ہوتا ہے اور ہمیں اسی طرح پورا کرنا چاہیے لیکن جب دیکھا کہ ہم حکومت سے نکلنے والے ہیں تو وعدے پورے نہیں کیے گئے، بلکہ انہیں ریورس کردیا جس سے عالمی مالیاتی اداروں میں پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ اس بدقسمتی میں کچھ عالمی منفی اشاروں نے بھی کردار ادا کیا، اس میں عالمی جی ڈی پی شرح نمو میں 50 فیصد کمی آگئی ہے، عالمی افراطِ زر میں 85 فیصد کا اضافہ ہوا۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ عالمی تجارت کی شرح نمو میں 5 گنا کمی واقع ہوئی اور گلوبل ولیج ہونے کی وجہ سے پاکستان بھی اس سے متاثر ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ پاکستان کو سیلاب کی قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں معاشی اور املاک کا تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ جائزے میں یہ بات سامنے آئی تھی تعمیر نو کے لیے 16 ارب ڈالر درکار ہوں گے جس کا نصف ہم خود پورا کریں گے، لیکن دوحہ میں ہوئی ڈونرز کانفرنس میں ہماری توقع سے زیادہ امداد کے وعدے کیے گئے۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ 2019 کا آئی ایم ایف پروگرام 2023 میں ختم ہونا چاہیے تھا، اس کے علاوہ ہم نے پوری کوشش کی اور اس کی بھاری سیاسی قیمت ادا کی، اتنی مشکل اصلاحات مینڈیٹ لے کر آنے والی نئی حکومت تو کر سکتی ہے لیکن ایک حکومت جس کو پتا ہو کہ اس کے پاس 14 ماہ ہیں اس کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں خاصے تکلیف دہ اقدامات اٹھانے پڑے، ہم ایک وچ سائیکل میں پھنس چکے ہیں جب کرنسی کی قدر میں کمی ہوتی ہے تو مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پالیسی ریٹ بڑھانا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج لوگ گھبرائے ہوئے ہیں، مارکیٹ کے اثرات منفی ہیں، جب میں آیا تو کہا گیا کہ ڈالر 200 سے نیچے آئے گا لیکن جو کہ آنا چاہیے تھا اور 190 تک آیا تھا لیکن نہ جانے کون سے خفیہ ہاتھ ہیں کہ جب میں واشنگٹن گیا تو یہ رجحان پلٹ گیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری کرنسی مصنوعی وجوہات کی وجہ سے انڈر ویلیو ہے جنہیں ہمیں دور کرنا اور ہم کر رہے ہیں، اللہ نے چاہا تو یہ خود بخود بہتر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے غیر ملکی قرضوں میں 4 ارب ڈالر کمی ہوئی ہے، لیکن آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر کی وجہ سے مارکیٹ کا کمزور تاثر بنا ہوا ہے اور ہماری حکومت کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ واجبات کو وقت پر ادا کردیا جائے باقی تمام کاروبار اس کے بعد ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ خبریں آتی ہیں کہ باہر بیٹھ کر لوگ اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ پاکستان اب تک دیوالیہ کیوں نہیں ہوا، بہرحال سخت معاشی نظم و ضبط جاری رہے گا۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ اشیا کے تبادلے کی تجارت میں توسیع کی جائے گی، پاکستان، افغانستان اور روس تینوں ممالک کو بینکنگ مسائل کا سامنا ہے، اس کے ذریعے درآمدت میں کمی آئے گی، اسے توسیع دینے کے لیے یمن اور سوڈان پر بھی غور جاری ہے، اگر وہ شرائط پوری کریں گے تو اس پر غور کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی کی شرح نمو 0.29 فیصد رہی، سیلاب، عالمی دباؤ اور دیگر عناصر کی وجہ سے یہ ایک حقیقی اچیومنٹ ہے جو میرے خیال میں اس سے بہتر نہیں ہوسکتی تھی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اس حکومت نے انتہائی مشکل اور سخت فیصلے کیے جس کے لیے نہایت بہادری کی ضرورت تھی جسے تاریخ یاد رکھے گی کہ سیاست پر ریاست کو ترجیح دی اور دیوالیہ ہونے کا خطرہ دور کیا اور بالکل تباہ حال معیشت کو بچا لیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے جی ڈی پی کی شرح نمو ساڑھے 3 فیصد ہے جس کے لیے ہم زراعت، صنعت، برآمدات، آئی ٹی سیکٹر، ریونیو موبلائزیشن پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ اقتصادی سروے وزارت خزانہ کی ایک سالانہ فلیگ شپ اشاعت ہے جو اہم معاشی اشاریوں، ترقیاتی پالیسیوں، حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ معیشت کی شعبہ جاتی کامیابی کے رجحان کو اجاگر کرتا ہے۔
ہر سال آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیے جانے سے ایک روز قبل اقتصادی سروے جاری کیا جاتا ہے۔
قبل ازیں وزیر خزانہ نے پاکستان کے اقتصادی سروے 23-2022 کی کاپی آج وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم شہباز شریف کو پیش کی۔