استعفے کی بات پی ڈی ایم کی بنتے ہی ہوئی تھی: مولانا فضل الرحمٰن

مولانا فضل الرحمان

پشاور(سچ خبریں) میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ اسمبلیوں سے استعفے شروع میں ہی شامل کیے گئے تھے اور یہ آپشن آج نہیں رکھا گیا اور ایسا کہنا بھی صحیح نہیں کہ یہ کوئی حتمی فیصلہ ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مختصر الفاظ میں کہہ دیتا ہوں کہ پی ڈی ایم متحد ہے، مختلف مسائل پر اختلاف رائے ہوتا ہے اور کل بھی مختلف رائے سامنے آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب پی ڈی ایم بنا رہے تھے تو اس وقت ہم نے استعفے کا آپشن رکھا تھا اور اس میں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ یہ حتمی آپشن ہوگا اور ایٹم بم کی طرح اسے استعمال کریں گے، ایسا کہیں نہیں لکھا۔

پی ڈی ایم کے صدر نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے جلسے کیے اور لوگوں کا ردعمل دیکھا اور اب جب ہم نے فیصلہ کیا کہ اسلام آباد یا راولپنڈی کی طرف مارچ ہوگا تو 10 میں سے 9 جماعتوں کی رائے تھی کہ ہم جائیں تو استعفے دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی بات نہیں کہ پہلے مرحلے میں قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفیٰ دے دیں، آدھا ایوان خالی ہوجائے گا اور انہیں الیکشن کروانے پڑیں گے لیکن پیپلزپارٹی نے نہیں مانا جبکہ اکثریت کی رائے استعفے دینے کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں مجالس کی اندر کی کہانی اصل میں راز ہوتی ہے جس کو افشاں کرنا خیانت اور بددیانت ہوتی ہے لیکن ایسا ہوا اور پیپلزپارٹی کو چند دن کی مہلت دی گئی کہ سی ای سی کے سامنے 9 جماعتوں کا مؤقف رکھیں اور ہمیں اپنا فیصلہ بتائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 9 جماعتوں کا مؤقف واضح طور پر سامنے آیا ہے اور پیپلزپارٹی کے مؤقف کا انتظار ہے، خدا کرے ان کو یہ بات سمجھ آئے اور 9 جماعتوں کی رائے کا احترام کریں، پی ڈی ایم کے رکن اور ساتھ رہیں، ہم ان کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا آئین 1973 میں بنا، جس میں بنیادی سوال تھا کہ قانون سازی کے لیے اساس کیا ہو اور اس مقصد کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل تشکیل دی گئی جس میں ہر مکتب فکر سے علما شامل کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا کام قرآن و سنت کے مطابق سفارشات دینا ہے، ہر سال کتابوں کی شکل میں سفارشات آتی ہیں لیکن آج تک کسی ایک پر عمل نہیں ہوا اور اس کے مطابق قانون سازی نہیں ہوئی حالانکہ اس پر تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے صوبے میں 2002 میں حکومت بنائی اور حسبہ بل لے کر آئے اور ایک سال تک اس پر بحث کی، اس پر سمینار کروائے، ہر فکر کے وکلا کو اس میں بلایا۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم قانون سازیاں کرتے ہیں، پھر ہمارے اوپر بین الاقوامی دباؤ آتا ہے، جب ریاست پر بین الاقوامی دباؤ آتا ہے اور اس دباؤ میں ہم کوئی قانون بناتے ہیں یا قانون تبدیل کرتے ہیں تو اسی سے اندازہ لگائیں کہ ہماری آزادی کدھر ہے۔

انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام کے منشور میں خارجہ پالیسی کے موضوع میں اسرائیل اور برطانیہ دونوں کا ذکر موجود ہے، گزشتہ دو برسوں میں ہم آرام سے نہیں بیٹھے اور انہیں اس ایجنڈے پر پیش رفت بھی نہیں ہونے دی۔

مدارس کے سلیبس پر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمارے علمائے کرام نے سلیبس کو ایک رکھنے کے لیے بڑی کاؤشیں کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع نے 4 سال تک حکومت اور بیورکریسی سے گفتگو کی کہ آئیے ہم نصاب ایک کریں لیکن پذیرائی نہیں بخشی گئی، تب جا کر دارالعلوم کی بنیاد رکھی۔

انہوں نے کہا کہ آج بین الاقوامی دباؤ کے تحت دینی علوم کے مراکز پر پہلے مداخلت کرنا چاہتے ہو، اس کے کردار کو کمزور کرکے بالآخر ختم کرنا چاہتے ہو لیکن ہم دینی مدارس کی آزادی اور خودمختاری کے ساتھ دینی علوم کا تحفظ کریں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم نے اس قوم کے ساتھ کیا کردیا، ڈیڑھ کروڑ کی پشتون قبائلی آبادی کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا، اس حوالے سے رپورٹ میرے سامنے رکھی گئی تھی جس کو میں نے حقائق کے منافی قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے خود لکھا کہ قبائلی علاقوں کو ہم 10 سال تک ایک ہزار ارب روپے دیں گے یعنی ہر سال 100 ارب تاکہ قبائلی علاقوں کو دیگر علاقوں کے برابر لایا جائے لیکن 5 سال ہوگئے ہیں لیکن ایک روپیہ نہیں دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ چھوٹے کام ہوئے ہوں گے لیکن اس رپورٹ میں جو کہا گیا تھا اس کے مطابق ایک روپیہ نہیں دیا گیا، وہاں سرے سے لینڈ ریکارڈ ہی نہیں ہے، وہاں زمین کی تقسیم کیسے ہوگی، آج قبائل آپس میں لڑ رہے ہیں اور یہ تماشا دیکھ رہے ہیں، اس کے لیے ایک پیپر تیار کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جو آئینی ترمیم تیار کی گئی تھی کیا وہ آئینی تقاضوں کے مطابق تھیں، اس پر کیا ایوان میں بحث ہوئی، کیا لوگوں کی رائے سنی گئی، کچھ بھی نہیں کیا گیا، میں نواز شریف کے ساتھ ہونے کے باوجود اکیلے اس کی مخالفت کی جبکہ دیگر اپوزیشن سب ایک ساتھ تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے