اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر کینیا میں قتل ہونے والے سینئر صحافی و اینکر ارشد شریف کے کیس کے حوالے سے 3 رکنی انکوائری کمیشن بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔
نجی ٹی وی نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہا کمیشن پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت بنایا جا رہا ہے، 3 رکنی کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) عبدالشکور پراچہ ہوں گے، کمیشن کی منظوری کے لیے وزارت داخلہ کی جانب سے وفاقی کابینہ کی منظوری کے لیے سمری بھیج دی گئی، کمیشن کی سمری کی منظوری سرکیولیشن کے ذریعے وفاقی کابینہ سے لی جائے گی۔
علاوہ ازیں اس واقعے کی تحقیقات کے سلسلے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے اور انٹیلی جنس بیورو کے افسران پر مشتمل 2 رکنی ٹیم تحقیقات کے لیے کینیا میں ہے، جہاں وقار اور خرم کا تحقیقاتی ٹیم کو دیا بیان سامنے آگیا، دونوں بھائیوں نے پاکستانی تحقیقاتی افسران کو بتایا کہ ارشد شریف نیروبی منتقل ہونے کا سوچ رہے تھے اور اس کے لیے انہوں نے ویزے کی مدت بھی بڑھوائی۔
ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا گیا ہے کہ پاکستانی افسران نے کراچی کے شہریوں وقار احمد اور خرم احمد سے کینیا میں پوچھ گچھ کی، اس دوران دونوں بھائیوں سے واقعے سے متعلق متعدد سوالات پوچھے گئے، جن کے جواب میں وقار احمد نے بتایا نیروبی سے قبل ارشد شریف سے صرف ایک بار کھانے پر ملاقات ہوئی تھی، کسی دوست نے ارشد شریف کی میزبانی کا کہا، ارشد شریف میرے گیسٹ ہاؤس پر 2 ماہ تک قیام پذیر رہے۔
رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ وقار احمد نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ نیروبی سے باہر اپنے لاج پر ارشد کو کھانے پر مدعو کیا، واقعے کے روز ارشد شریف نے لاج پر ساتھ کھانا کھایا، کھانے کے بعد ارشد شریف میرے بھائی خرم کے ساتھ گاڑی میں نکلے اور آدھے گھنٹے بعد گاڑی پر فائرنگ کی اطلاع آئی، خرم فائرنگ کے واقعے کے دوران معجزانہ طور پر محفوظ رہے، ارشد شریف کے زیر استعمال آئی پیڈ اور موبائل فون کینیا کے حکام کے حوالے کر دیا۔
ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا گیا کہ خرم احمد نے بتایا کہ لاج سے نکلنے کے بعد 18 کلومیٹر کا کچا راستہ ہے اور پھر سڑک شروع ہوتی ہے، سڑک شروع ہونے سے تھوڑا پہلے کچھ پتھر رکھے تھے، پتھروں کو کراس کرتے ہی فائرنگ ہو گئی، فائرنگ سے خوفزدہ ہوکر گاڑی بھگالی۔