سچ خبریں:اسرائیلی سیاسی اور عسکری ماہرین نے تل ابیب کو خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کی لاگت اس کے حاصل کردہ نتائج سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔
شهاب خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی مزاحمتی تحریک کی کارروائیوں میں اسرائیلی ہلاکتوں میں اضافہ تل ابیب کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کی معیشت دیوالیہ ہونے کے دہانے پر
جنگ کے اخراجات اور تل ابیب کی حکمت عملی پر سوالیہ نشان
اسرائیلی چینل 13 کے عسکری تجزیہ کار الون بن دیوید نے کہا کہ غزہ کی جنگ کے اخراجات اس کے فوائد سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ممکن ہے ہم غزہ کو مزید تقسیم کرنے کی کوشش کریں، لیکن جب جیالیا میں جنگ ختم ہو گی تو اس کے بعد کیا کریں گے؟
انہوں نے مزید کہا کہ کئی ایسے علاقے ہیں جہاں اسرائیلی فوج کو طویل عرصے تک ٹھہرنا پڑے گا اور بھاری نقصان برداشت کرنا ہو گا۔
جبالیا میں بڑھتی ہلاکتیں
اسرائیلی فوج کے سابق آپریشن چیف یسرائیل زیف نے خبردار کیا کہ غزہ جنگ میں ذخیرہ شدہ فوجیوں کا نقصان ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔
انہوں نے حالیہ آپریشن میں جبالیا کیمپ میں 25 فوجیوں کی ہلاکت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ سوال اہم ہے کہ کیا اسرائیلی فوج جبالیا میں موجود رہے گی یا وہاں سے پیچھے ہٹ جائے گی؟
جنگ کے مقاصد اور اسرائیلی قیدیوں کی واپسی
سیاسی تجزیہ کار آمنون ابرامویچ نے اسرائیلی چینل 12 پر کہا کہ:
تل ابیب کو جنگ کے واضح مقاصد کا تعین کرنا ہوگا اور اس کا اختتام تمام اسرائیلی قیدیوں کی واپسی پر ہونا چاہیے۔
انہوں نے سوال کیا کہ فوجی ہلاکتوں کا کیا مقصد ہے؟ اسرائیل غزہ میں کیا حاصل کرنا چاہتا ہے، اور یہ جنگ کب ختم ہو گی؟
فوجی قبرستان کی توسیع اور اسرائیلی ہلاکتیں
غزہ اور لبنان میں جنگ کے باعث اسرائیلی فوجی ہلاکتوں میں اضافے کے پیش نظر اسرائیلی ریڈیو نے رپورٹ دی ہے کہ کوہ ہرٹزل قبرستان میں مزید 600 قبروں کے لیے جگہ فراہم کی جا رہی ہے۔
قبرستان کی زمین میں 7700 مربع میٹر کا اضافہ کیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں مزید ہلاک شدہ فوجیوں کو دفن کیا جا سکے۔
نتیجہ
غزہ جنگ کے بڑھتے اخراجات، فوجی ہلاکتوں، اور غیر یقینی نتائج نے اسرائیلی پالیسیوں پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
مزید پڑھیں: غزہ کی جنگ میں ناکامیوں اور داخلی بحرانوں کا شکار نیتن یاہو
یہ جنگ اسرائیل کے لیے عسکری، سیاسی اور اقتصادی محاذ پر ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے، جس سے تل ابیب کی حکمت عملی پر تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔