سچ خبریں: شامی نژاد جس نے سویڈن کی طرف سے دیے گئے اجازت نامے کے ساتھ اسٹاک ہوم میں ایک ریلی نکالنی تھی، کہا کہ میرا توریت اور بائبل کو جلانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، میں تو صرف قرآن کی بے حرمتی کی مذمت کرنا چاہتا تھا۔
جیو نیوز کی رپورٹ کے مطابق سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں صہیونی سفارت خانے کی عمارت کے باہر توریت اور بائبل کے نسخے جلانے کی دھمکی دینے والے شخص احمد الف نے اعلان کیا کہ انہوں نے دوسرے مذاہب کا احترام کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے مطابق وہ عیسائیوں اور یہودیوں کی مقدس کتابوں کی بے حرمتی نہیں کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: سویڈش عوام کی اکثریت قرآن پاک کی بے حرمتی پر پابندی کی خواہاں
رپورٹ کے مطابق اس شخص کا مزید کہنا تھا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ سویڈش حکام نے انہیں اس سلسلے میں 3 افراد کا اجتماع منعقد کرنے کی اجازت دی تھی، تاہم ان کا کوئی کتاب جلانے کا ارادہ نہیں تھا۔
ڈوئچے ویلے کے مطابق انہوں نے لائٹر کو زمین پر پھینک دیا اور توریت اور بائبل کی بے حرمتی کرنے کے لیے وہاں آنے والوں سے کہا کہ میں نے کبھی کسی مقدس کتاب کو جلانے کا نہیں سوچا، میں مسلمان ہوں، ہم مقدس کتابوں کو نہیں جلاتے۔
شامی نژاد اس 32 سالہ شخص نے اس بات پر زور دیا کہ اس احتجاج کا بنیادی مقصد اظہار رائے کی آزادی کے حق کے استعمال اور دیگر نسل پرست گروہوں کی توہین کے درمیان فرق کو اجاگر کرنا تھا۔
جیو نیوز کے مطابق آج کے اجتماع کے منتظم احمد الف نے واضح کیا کہ ان کا مقصد مقدس کتابوں کو جلانا نہیں بلکہ ان لوگوں کی مذمت کرنا ہے جنہوں نے حال ہی میں سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کی ہے۔
اپنے آج کے عمل کے بارے میں انہوں نے مزید کہا کہ یہ قرآن کو جلانے والے لوگوں کا جواب ہے، میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آزادی اظہار رائے کی حدود ہیں جن پر غور کیا جانا چاہیے۔
مزید پڑھیں: عراقی سیاستداں کی اسلامی ممالک کو سویڈن کے بارے میں تجویز
میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا ہے، ہم ایک معاشرے میں رہتے ہیں، اگر میں توریت، بائبل یا کوئی دوسری مقدس کتاب جلاؤں تو یہاں جنگ ہو گی جبکہ میں جو دکھانا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ ایسا کرنا صحیح نہیں ہے۔
یاد رہے کہ حالیہ ہفتوں میں سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی، تاہم اس ملک کی حکومت نے بہت دیر سے اس اقدام کی مذمت کی اور اسے اسلامو فوبیا قرار دیا۔