سچ خبریں:فرانسیسی نیوز ایجنسی نے اپنی ایک رپورٹ میں سعودی عرب کی عدلیہ میں اصلاحات کے سلسلے میں ریاض کو درپیش چیلنجوں کا جائزہ لیا۔
اے ایف پی نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ سعودی عرب اپنے سخت عدالتی ڈھانچے میں اصلاحات لانے کی کوشش کر رہا ہے، تاہم ان اصلاحات پر پھانسیوں اور مخالفین کے ساتھ سخت سلوک کی وجہ سے سوالیہ نشان لگا ہوا ہے، اس سے ان تبدیلیوں کی تاثیر کی سطح پر سوالات اٹھتے ہیں۔
واضح رہے کہ سعودی عرب سزاؤں کے سخت نفاذ میں مشہور ہے جو اس کے عدالتی نظام کی بنیاد ہے لیکن حالیہ مہینوں میں اس نے ایسی اصلاحات نافذ کی ہیں جن کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی عدالتیں مشرق وسطیٰ کی دیگر عدالتوں کی طرح بن سکتی ہیں۔
یادرہے کہ یہ کوشش خواتین کے طلاق کے حقوق اور مجرمانہ سزاؤں کا تعین کرنے کے لیے ججوں کے اختیارات جیسے حساس مسائل پر نئے قوانین کے ایک سیٹ پر منحصر ہے، یہ اقدام، جس کا اعلان گزشتہ سال اس ملک کے حقیقی حکمران، ولی عہد محمد بن سلمان نے کیا تھا، ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب دنیا کے سامنے اپنی انتہا پسندانہ داغدار شبیہ کو ٹھیک کرنے کے ہدف سے کیا گیا ہے۔
یہاں تک کہ ناقدین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ تبدیلیاں بعض معاملات میں سعودی عدالتوں کو زیادہ قابلِ پیشگوئی بنا سکتی ہیں۔