سچ خبریں:برطانوی سرکاری عہدیداروں اور بحرین کی آل خلیفہ حکومت کے مابین ایک تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے ہونے والے اجلاس کے خلاف انسانی حقوق کے کارکنوں نے احتجاج کیا۔
برطانوی اخبار گارڈین کی رپورٹ کے مطابق برطانوی انسانی حقوق کے کارکنوں نے بحرین کی آل خلیفہ حکومت کے عہدیداروں کے ساتھ اس ملک کےوزیر اعظم بورس جانسن کی خاموشی کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے خلاف احتجاج کیا ، رپورٹ کے مطابق جانسن اور بحرین کے ولی عہد شہزادہ سلمان بن حمد آل خلیفہ کے مابین ملاقات سے قبل برطانیہ کے دفتر خارجہ اور وزیر اعظم کے دفتر نے کوئی معلومات جاری نہیں کیں۔
تاہم اس ملاقات کے بعد برطانوی حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دونوں فریقوں نے "معاشی ، سلامتی اور سفارتی تعاون کو مضبوط بنانے” پر اتفاق کیا ہے،یادرہے کہ برطانیہ بحرین ، سعودی عرب ، عمان اور متحدہ عرب امارات سمیت جی سی سی ممالک کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے کی تلاش میں ہے، تاہم ، ان ممالک میں سے کچھ کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کے تجارتی معاہدوں کی برٹش پارلیمنٹ کے ممبران نے مخالفت کی ہے۔
ہاؤس آف لارڈز میں لبرل ڈیموکریٹ پال سکریوین نے آل خلیفہ کے عہدیداروں اور برطانوی سرکاری عہدیداروں کے مابین ہونے والی ملاقات کے جواب میں کہاکہ مجھے حیرت نہیں ہوئی،یہاں تک کہ برطانوی سرکاری بیان میں بحرین میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا ذکرتک نہیں کیا گیا ہے،درایں اثنابحرین کے انسٹی ٹیوٹ برائے لاء اینڈ ڈیموکریسی کے ڈائریکٹر نے کہا کہ اگر برطانیہ واقعی کسی ایسی حکومت کے ساتھ تجارتی معاہدے کی تلاش کر رہا ہے جس میں سیاسی قیدیوں کو یرغمال بنایا جاتاہے ، بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے حتیٰ کہ اعتدال پسند تنقید کرنے والوں بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو مستقبل میں کسی بھی کاروباری تعلقات کو بطور اصول یہ ضروری ہے کہ انسانی حقوق کے معاملات پر بھی توجہ دی جائے۔
دی انڈیپنڈنٹ کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم پرویو کے ایک رکن نے کہا کہ برطانوی حکومت اکثر بحرین کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں فخر سے بات کرتی ہے،تو پھر وہ بحرین کے ولی عہد شہزادے سے ملنے کے لیے پچھلے دروازے سے کیوں جاتے ہیں اور اس ملاقات کا اعلان کیوں نہیں کرتے ہیں؟