سچ خبریں: ترکی کی خارجہ پالیسی میں ایک سال پہلے سے اہم تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ کیونکہ جن ممالک کے ساتھ ترکی کے اختلافات ہیں ان کے ساتھ مفاہمت اس پالیسی کا غالب رنگ بن چکی ہے۔
الخلیج اخبار میں ایک رپورٹ شائع کرتے ہوئے ترکی کے امور کے ماہر محمد نورالدین نے ترکی کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیوں، خاص طور پر شام کے حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں پر گفتگو کی اور لکھا کہ ترک حکام نے اعلیٰ سطح پر، مذکورہ ممالک کےدورے کیے ہیں۔ اگرچہ ابھی تک اس کے ٹھوس نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ خاص طور پر مصر کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے۔
نورالدین کے مطابق ترکی اور شام کے تعلقات میں حال ہی میں ایک نئی اور حیران کن پیش رفت دیکھنے میں آئی جس کا اظہار ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اوغلو کے بیانات میں ہوا۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے اپنے شامی ہم منصب فیصل مقداد سے بلغراد اجلاس کے موقع پر چند منٹوں کے لیے ملاقات کی اور ترکی حکومت اور شامی اپوزیشن کے درمیان سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
اس تجزیاتی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ یہ ملاقات گزشتہ سال نومبر میں ہوئی تھی لیکن اب اس کے انکشاف نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے اور مختلف ردعمل سامنے آئے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ترکی کی مفاہمتی پالیسیوں میں شام کی باری ہے؟ کیا اس میدان میں حوصلہ افزا عوامل ہیں؟ یا یہ صرف فریق مخالف کے ردعمل کو سمجھنے کی ایک کوشش یا تجربہ ہے؟ یا اس کا تعلق ترکی کے اندرونی حسابات سے ہے جیسا کہ صدارتی انتخاب؟