سچ خبریں:پورے اسلامی خطے نے ریاستہائے متحدہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شرارتوں کے خلاف مزاحمت کا علم بلند کیا اور سیف القدس کو نیام سے نکالا اور جارحین کی ناک رگڑ کر رکھ دیا نیز یہ ثابت کر دیا کہ اسلامی ممالک کی پسماندگی کی تلافی کرنے کا طریقہ مزاحمت ہی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے حج کے موقع پر اپنے پیغام میں بیت اللہ کی مہمانی میں شرکت کے لئے بے چین دلوں کی آرزؤں کو ایک گذر جانے والا امتحان قرار دیا اور حملہ آور طاقتوں بالخصوص امریکہ کے خلاف مزاحمت سمیت حج کے پیغامات کو کم نہ کیے جانے پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ان پیغاموں کو عظیم قرار دیا،آپ نے اسلامی دنیا کی پریشانیوں اور بدحالیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے خاص طور پر فلسطین ، یمن اور عراق میں مزاحمت اور بیداری کے عناصر کے بلند ہوتے پرچم کو اسلامی خطے کی ایک پر امید حقیقت قرار دیا اور زور دیاکہ مجاہدین کی مددکرنا خدا وند عالم کا سچا وعدہ ہے اور اس جہاد کا سب سے پہلا اثر امریکہ اور دیگر سامراجی طاقتوں اسلامی ممالک میں مداخلت اور شرارت کرنے سے روکنا ہے۔
قائد اسلامی انقلاب کے پیغام کا متن کچھ اس طرح ہے:
بسماللّهالرّحمنالرّحیم
و الحمد للّه ربّ العالمین و صلّی اللّه علی محمّد و آله الطّاهرین و صحبه المنتجبین و مَن تَبِعهم بِاحسان الی یوم الدّین.
دنیا بھر کے مسلمان بھائیو اور بہنو!
اس سال بھی ، امت مسلمہ حج کی عظیم نعمتوں سے محروم رہی اور بے چین دلوں نے سسکیوں اور افسوس کے ساتھ اس عظیم گھر جو خدا حکیم اور رحیم نے لوگوں کے لئے بنایا ہے ،میں ضیافت کھودی ، یہ دوسرا سال ہے کہ حج کی خوشی اور روحانی خوشحالی کا موسم جدائی اور حسرت کے ساتھ گذر رہا ہے اور وبائی امراض یا شاید حرم مبارک پر حکمرانی کرنے والی پالیسیوں کا وبا مومنین کو اسلامی امت کے اتحاد و عظمت اور روحانیت کی علامت کا مشاہدہ کرنے سے محروم کر رہی ہےنیز اس باشکوہ اور عظیم چوٹی کو بادلوں میں چھپا رہی ہے، یہ امتحان بھی امت اسلامیہ کی تاریخ کے دوسرے امتحانوں کی طرح گذر جانے والا ہے جو روشن مستقبل کی طرف لے جاسکتا ہیں، ضروری یہ ہے کہ حج اپنی اصل شکل میں مسلمانوں کے دلوں اور جانوں میں زندہ رہے اور اب جب کہ وقتی طور پر اکثر مسلمان اس مقدس مقام پر موجود نہیں ہیں لیکن اس پیغامات کو پھیکا نہیں پڑنا چاہیے۔
حج ایک پراسرار عبادت ہے، اس میں نقل و حرکت اور خاموشی کی خوبصورت تعمیر اور آمیزش ، مسلم فرد اور مسلم معاشرے کی شناخت کو تشکیل دیتی ہے اور دنیا کی نگاہ میں اس کی خوبصورتی کو ظاہر کرتی ہے، ایک طرف ، یہ بندوں کے دلوں کو روحانی طور پر بلند کرتا ہے اور انہیں خدا کی یاد ، عاجزی اور دُعا کے ذریعہ خدا کے قریب کرتا ہے اور دوسری طرف پوری دنیا سے آنے والے بھائیوں کو منظم اور یکساں حرکات کے ذریعہ آپس میں جوڑتا ہے جبکہ یہ عبادت امت کی اعلی علامت کو اپنی تمام معنی خیز اور پراسرار رسومات کے ساتھ عالم اسلام کی نگاہوں کے سامنے رکھتی ہے اور برا چاہنے والوں کے سامنے امت کے عزم و عظمت کا مظاہرہ کرتی ہے۔
اس سال خانہ خدا میں حاضری میسر نہیں ہے لیکن خداوند عالم کے اس عظیم گھر کی طرف توجہ ، یاد ، عاجزی ، دعا اور توبہ تو دستیاب ہے، عرفات میں حاضری ممکن نہیں ہے لیکن عرفات کے دن کی معرفت پر مبنی دعائیں اور مناجاتیں توممکن ہیں،منیٰ میں شیطان کو کنکڑی مارنا ممکن نہیں لیکن طاقت کے متلاشی شیطانوں کو پسپا کرنا ہر جگہ ممکن ہے، خانہ کعبہ کے قریب جسموں کی متفقہ موجودگی فراہم نہیں ہے لیکن قرآن مجید کی واضح آیات کے گرد دلوں کی متفقہ موجودگی اور خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ایک مستقل فرض ہے۔
ہم، اسلام کے پیروکار جن کے پاس آج بہت بڑی آبادی ، وسیع و عریض زمین ، ان گنت قدرتی وسائل اور زندہ و بیدار قومیں ہیں ، ہمیں اپنے وسائل اور امکانات سے مستقبل کی تشکیل کرنی ہوگی۔ گذشتہ 150 برسوں میں مسلم قوموں نے اپنے ممالک اور حکومتوں کے فیصلوں میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے ، اور کچھ استثناء کے ساتھ ، غاصب مغربی حکومتوں کی پالیسیوں پر مکمل طور پر حکمرانی کی گئی ہے اور انہیں لالچ ، مداخلت اورشرارت کا نشانہ بنایا گیا ہے، آج بہت سارے ممالک کی سائنسی پسماندگی اور سیاسی وابستگی اسی طرح کی سرگرمیوں اور عدم اہلیت کی پیداوار ہے، ہماری قوموں ، ہمارے نوجوانوں ، ہمارے سائنس دانوں ، ہمارے مذہبی اسکالرز اور دانشوروں ، ہمارے سیاستدانوں، ہماری جماعتوں اور برادریوں کو آج اس شرمناک ماضی کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ مغربی طاقتوں کے جبر ، مداخلت اور شرارتوں کا مقابلہ کرنے کے اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وہ نظریہ جس نے متکبر دنیا کو پریشان اور مشتعل کر دیا، اسی طرح کی مزاحمت اور اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ریاستہائے متحدہ امریکہ اور دیگر جارح طاقتوں کی مداخلت اور شرارتوں کے خلاف مزاحمت اور اسلامی دنیا کے مستقبل کو اپنے ہاتھ میں لینے کی دعوت دینا ہے ،ظاہر ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی "مزاحمت” کے لفظ سے حساس ہیں اور "اسلامی مزاحمتی محاذ” کے ساتھ ہر قسم کی دشمنی پر کمر کس چکے ہیں، ان کے ساتھ کچھ علاقائی حکومتوں کا وابستہ ہونا بھی ان شرارتوں کے تسلسل کی تلخ حقیقت ہے،حج کے اعمال سعی ، طواف ، عرفات ، جمرات اوردیگر پرشکوہ اور باعظمت مناسک ہمیں بتلاتے ہیں خدا پر بھروسہ ، اس کی ابدی طاقت کی طرف توجہ ،قومی روح پر اعتماد اور اعتقاد، کوشش اور جدوجہد کے زریعہ آگے بڑھنے کا پختہ عزم فتح کی ایک بہت بڑی امید ہے، اسلامی خطے کی حقیقی صورتحال اس امید کو اور اس عزم کو تقویت بخشتی ہے۔
دوسری طرف ، عالم اسلام کی بدقسمتی ، سائنسی پسماندگی ،سیاسی وابستگیوں اور معاشی و معاشرتی بد امنی نے ہمیں ایک عظیم کام اور انتھک جدوجہد کے سامنے لاکھڑا کیا ہے،مقبوضہ فلسطین ہم سے مدد مانگ رہا ہے، مظلوم اور خون میں ڈوبا ہوا یمن دلوں کو تکلیف دیتا ہے، افغانستان کی حالت زار سب کو پریشان کرتی ہے،عراق ، شام ، لبنان اور کچھ دوسرے مسلم ممالک میں ہونے والے تلخ واقعات جہاں سامراج کا ہاتھ اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت عیاں ہے ، نوجوانوں کی غیرت اور حمیت کا جگا رہی ہے جبکہ دوسری طرف اس تمام حساس خطے میں مزاحمتی عناصرکا عروج ، اور اقوام کی بیداری اور نوجوان اور متحرک نسل کی تحریک دلوں کو امیدوں سے لبریز کر دیتی ہے، فلسطین اپنے تمام حصوں میں ہر طرف سے سیف القدس کو نیام سے نکال رہا ہے، یروشلم ، غزہ ،پٹی ، 48 کی سرزمین ، اور کیمپ سبھی اٹھ کر بارہ دن تک جارحین کی ناک کو زمین پر رگڑ تے رہتے ہیں، محصور اور اکیلے یمن نے سات سال تک شدیدترین اور سنگ دل دشمن کے جرم ، اور ظلم برداشت کیے ہیں جہاں خوراک ، ادویات اور رہائش کی سہولیات کے قحط کے باوجودوہ ظالموں کو سر تسلیم خم نہیں کرتے ہیں اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور اقدام سے دشمن کو خوفزدہ کردیتے ہیں، عراق میں ، مزاحمتی عناصر واضح طور پرقابض ریاستہائے متحدہ امریکہ اور داعش کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر رہے ہیں نیزامریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے کسی بھی طرح کی مداخلت اور شرارت کا مقابلہ کرنے کے اپنے عزم کا اظہار کر رہے ہیں، امریکی پروپیگنڈہ کی کوشش ہے کہ عراق ، شام ، لبنان اور دیگر ممالک میں "مزاحمتی” عناصر کے عزم اور اقدام کو مسخ کیا جائے اور انھیں ایران یا کسی اور ملک سے منسوب کیا جائے جو ان بہادر اور بیدار نوجوانوں کی توہین اور خطے کی اقوام کے سلسلہ میں امریکہ کی غلط فہمی ہے، اسی غلط فہمی نے افغانستان میں امریکہ کی تذلیل کی جہاں اس نے بیس سال پہلے ہنگامہ آرائی کیاور بے دفاع اور عام لوگوں کے خلاف ہتھیاروں ، بموں اور آگ کا استعمال کیا اورآخر کار اپنے آپ کو دلدل میں پھنسا ہو پایا جس کے بعد اپنی افواج اور فوجی سازوسامان کو یہاں سے لے جانے پر مجبور ہوا، بیدار افغان قوم کو اپنے ملک میں امریکی انٹیلی جنس ٹولز اور سافٹ ہتھیاروں کے خلاف چوکس اور چوکنا رہنا چاہئےجبکہ خطے کی اقوام نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ بیدار اور چوکس ہیں اور ان کا نقطہ نظر کچھ حکومتوں سے الگ ہے جو امریکہ کوخوش کرنے کے لیے فلسطین جیسے اہم مسئلے پر بھی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہیں نیز غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ کھل کر یاخفیہ طور پر دوستی کرنے والی حکومتیں فلسطینی عوام کے تاریخی آبائی حق کاانکار کرتی ہیں، یہ فلسطین کےسرمائے کی ڈکیتی ہے،ان حکومتوں کا اپنے ممالک کے قدرتی وسائل کو لوٹنے سے پیٹ نہیں بھرا اور اب فلسطینی عوام کو لوٹ رہے ہیں۔
بھائیو اور بہنو!
ہمارا خطہ اور اس کے تیز اور مختلف حالات ،سبق سیکھنے کرنے اور عبرت حاصل کرنےکا مقام ہیں، ایک طرف جارحیت اور سامراجی طاقتوں کے خلاف جدوجہد اور مزاحمت کے نتیجے میں طاقت اور دوسری طرف اس کے مسلط کرنے کی کمزوری اور رواداری کو تسلیم کرنے اور اس کے اظہار کے نتیجے میں رسوائی ، خدا کا سچا وعدہ ہے اِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُركُم وَ يُثَبِّت اَقدامَكُم، اگر آپ خدا کی مدد کریں گے تو خدا آپ کی مدد کرے گا اور آپ کو ثابت قدم رکھے گا، اس جدوجہد کا پہلا اثر اور دیگر بین الاقوامی جابروں کو اسلامی ممالک میں مداخلت اور شرارت سے روکنا ہے ، ان شاءاللہ۔
میں اللہ تعالی سے مسلم اقوام کی فتح کے لئے دعا گو ہوں اور میں حضرت بقیعۃ اللہ علیہ کو سلام کرتا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ امام خمینی اور شہداء کے درجات کو بلند کرے۔
والسّلام علی عباد اللّه الصّالحین
سیّدعلی خامنهای
17 جولائی2021
6 ذیالحجّه 1442