کیا سعودی عرب کی پہلی خاتون وزیر خارجہ ہوں گی؟

کیا سعودی عرب کی پہلی خاتون وزیر خارجہ ہوں گی؟

سچ خبریں:ریما بنت بندر بن سلطان، جو سعودی عرب کی پہلی خاتون سفیر کے طور پر جانی جاتی ہیں، وزارت خارجہ کی ایک ممکنہ امیدوار ہو سکتی ہیں۔

1975 میں ریاض میں پیدا ہونے والی ریما بنت بندر معروف سعودی شخصیت بندر بن سلطان کی بیٹی ہیں، جو طویل عرصے تک امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر اور سعودی انٹیلیجنس کے سربراہ رہ چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں ہونے والی تبدیلیاں صرف ایک دکھاوا ہے، جرمنی میں ہونے والی تحقیق نے اہم انکشاف کردیا

ریما نے اپنی تعلیم امریکہ میں حاصل کی اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے میوزیم اسٹڈیز میں گریجویشن کیا، وہ ولی عہد محمد بن سلمان کی قریب ترین شخصیات میں شامل ہیں اور ان کی اصلاحات کی حامی ہیں۔

ریما نے ہاروی نکولز جیسے عالمی معیار کے برانڈز کے ساتھ کام کرتے ہوئے الفا انٹرنیشنل کے تحت مختلف عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، فوربس مشرق وسطیٰ نے 2014 میں انہیں 200 بااثر عرب خواتین کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

2019 میں ریما بنت بندر کو امریکہ میں سعودی عرب کی سفیر مقرر کیا گیا، جو محمد بن سلمان کی جانب سے سعودی عرب کی بین الاقوامی تصویر کو بہتر بنانے کی کوششوں کا حصہ تھا۔

اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے کی روایت

ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ سعودی سفیروں کو امریکہ سے واپس آنے کے بعد اعلیٰ حکومتی عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے، جیسے وزارت خارجہ، وزارت دفاع، یا انٹیلیجنس کے ادارے۔

مثال کے طور پر بندر بن سلطان بیس سال تک امریکہ میں سعودی سفیر رہے اور بعد میں سعودی انٹیلیجنس کے سربراہ بنے۔
عادل الجبیر امریکی میں سابق سفیر بعد میں وزیر خارجہ بنے۔
خالد بن سلمان، محمد بن سلمان کے بھائی، جو وزیر دفاع ہیں اور مختصر مدت کے لیے امریکہ میں سفیر رہ چکے ہیں۔

ریما بنت بندر کے لیے امکانات

محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب میں مغربی طرز کی اصلاحات تیزی سے جاری ہیں، ان اقدامات کا مقصد سعودی عرب کی ایک جدید اور تبدیل شدہ شبیہ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔

ایسے میں، یہ بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں ریما بنت بندر جیسی خواتین اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو سکیں، جیسے وزارت خارجہ، اس سے سعودی حکومت اپنی غیر جمہوری شبیہ کو کسی حد تک بہتر بنا سکتی ہے اور خواتین کو زیادہ حقوق دینے کے عزم کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتی ہے۔

یہ تقرریاں نہ صرف بین الاقوامی سطح پر سعودی عرب کی ساکھ کو بہتر بنا سکتی ہیں بلکہ داخلی طور پر بھی سعودی عوام، خاص طور پر خواتین، کے لیے امید کی ایک کرن بن سکتی ہیں۔

یہ قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب میں جاری غیر معمولی اور تیز رفتار مغربی طرز کی اصلاحات کے نتیجے میں سعودی عرب کو ایک جدید اور بدلتے ہوئے ملک کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔

ایک ایسا ملک جو کبھی سلفی اور وہابی نظریات کا مرکز سمجھا جاتا تھا، اب اپنی ظاہری شبیہ کو مکمل طور پر جدید بنا رہا ہے۔

ایسی صورت حال میں یہ بعید نہیں کہ سعودی عرب مستقبل قریب میں ریما بنت بندر جیسی خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر فائز دیکھے، جیسے وزارت خارجہ۔ اس سے سعودی حکومت دنیا کے سامنے اپنی ایک جدید اور ترقی یافتہ تصویر پیش کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ اپنے غیر جمہوری تشخص کو جزوی طور پر اصلاحات کے ذریعے بہتر بنایا جا سکے۔

محمد بن سلمان کے دور میں سعودی حکومت نے ریما بنت بندر جیسی شخصیات کو اعلیٰ مناصب پر تعینات کر کے داخلی اور خارجی رائے عامہ میں اپنی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھنا کیوں نہیں چاہتا؟

اس کے علاوہ، خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے اور چند کلیدی عہدے سعودی شہزادیوں کو سونپنے جیسے اقدامات سے حکومت نے اپنی سابقہ خواتین مخالف پالیسیوں کو بہتر کرنے کی جانب قدم اٹھایا ہے، جو ماضی میں خواتین کے لیے سخت پابندیوں کا باعث بنی ہوئی تھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے