تل ابیب کا واشنگٹن پر دباؤ کا ہتھیار

واشنگٹن

?️

سچ خبریں: 22 مارچ 2024 کو، امریکی سفارت خانے نے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے امریکی شہریوں کو تنبیہ جاری کی، جس میں انہیں سلامتی کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی۔
واضح رہے کہ یہ انتباہ صہیونی ریاست کی کابینہ کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج، غزہ میں جاری جنگ، صہیونی قیدیوں کی جان کو لاحق خطرات، اور علاقے میں بگڑتی ہوئی سلامتی کی صورت حال کے پیش نظر جاری کیا گیا۔
امریکی سفارت خانے نے مقبوضہ فلسطین بشمول ویسٹ بینک میں رہائش پذیر اپنے شہریوں کو ہدایت کی کہ وہ بڑے اجتماعات اور مظاہروں سے اجتناب کریں، موشکی اور ڈرون حملوں کی صورت میں قریبی پناہ گاہوں کا علم رکھیں، اور اپنی ذاتی حفاظتی آگاہی بڑھائیں۔
اگرچہ سفارتخانوں کی جانب سے ایسے انتباہات عام ہوتے ہیں، لیکن مقبوضہ فلسطین جیسے پیچیدہ سلامتی ماحول میں، جہاں حالات تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں، اور خاص طور پر وہاں مستقل طور پر رہنے والے نیم ملین سے زائد امریکی شہریوں کی موجودگی کی وجہ سے، یہ انتباہات کافی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔
نیم ملین امریکی شہری مقبوضہ فلسطین میں
یہودی ایجنسی کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، دنیا بھر میں یہودیوں کی کل تعداد 15.7 ملین ہے، جن میں سے 7.2 ملین مقبوضہ فلسطین میں جبکہ 8.5 ملین دیگر ممالک میں مقیم ہیں۔ ان میں سے تقریباً 6.3 ملین امریکا میں رہتے ہیں، جو عالمی یہودی آبادی کا 74% ہیں۔
تاہم، امریکی اداروں کے اندازوں کے مطابق، مقبوضہ فلسطین میں 500,000 سے زائد امریکی شہری آباد ہیں، جو وہاں کی یہودی آبادی کا 7.6% بنتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 60,000 امریکی شہری ویسٹ بینک کے صہیونی بستیوں میں رہتے ہیں، جہاں "ریٹرن لا” کے تحت دنیا بھر کے یہودیوں کو صہیونی شہریت حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو "طوفان الاقصیٰ” آپریشن کے دوران 40 سے زائد امریکی ہلاک اور 12 کو حماس نے قیدی بنا لیا، جو امریکیوں کی مقبوضہ فلسطین میں کثیر تعداد میں موجودگی کی عکاسی کرتا ہے۔
امریکہ سے باہر رہنے والے امریکیوں کی تعداد کے لحاظ سے، مقبوضہ فلسطین کینیڈا، میکسیکو اور برطانیہ کے بعد چوتھے نمبر پر ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، گزشتہ دو دہائیوں میں الاقصی انتفاضہ کے بعد سے مقبوضہ فلسطین میں امریکیوں کی تعداد 600,000 تک پہنچ چکی ہے۔
امریکی یہودیوں کی مقبوضہ فلسطین میں ہجرت کے پیچھے کیا ہے؟
2022 میں امریکی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق، 159,000 سے زائد امریکی شہری مقبوضہ فلسطین میں رہتے ہیں جو ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے امریکی ووٹرز نے حالیہ انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کی حمایت کی، اور 2016، 2020 اور 2024 کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ فلسطین میں مقیم امریکیوں کے 75% ووٹ حاصل کیے۔
رونی سوفادسکی، ایک دوہری شہریت رکھنے والے یہودی خاندان کے سربراہ، جو واشنگٹن میں مالیاتی امور میں کام کرتے ہیں، نے بتایا کہ کئی صہیونی تنظیمیں نیویارک اور نیو جرسی جیسے علاقوں سے غریب یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین، خاص طور پر ویسٹ بینک کی بستیوں میں منتقل ہونے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ ان کا مقصد فلسطینی عربوں کے مقابلے میں آبادیاتی توازن قائم کرنا ہے۔
بہت سے امریکی یہودی یہاں مذہبی تعلیمات کی بنیاد پر رہتے ہیں اور اکثر صہیونی شہریت حاصل نہیں کرتے، چاہے ان کی ہجرت مستقل ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں امریکی شہریوں کی اصل تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔
صہیونی فوج میں امریکیوں کی موجودگی
رپورٹس کے مطابق، امریکی یہودی تارکین وطن اکثر مذہبی اور معاشرتی طور پر قدامت پسند علاقوں میں رہتے ہیں، جہاں وہ بڑے خاندانوں کے ساتھ رہتے ہیں اور صہیونی فوج کے باقاعدہ یا ریزرو فوجی کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔
صہیونی ریاست کے قوانین کے تحت، 18 سال سے زائد عمر کے تمام دوہری شہریت رکھنے والے افراد کو تقریباً 18 ماہ تک فوجی خدمات انجام دینی ہوتی ہیں، جس کے بعد وہ ریزرو فورس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بعض اوقات انہیں 50 سال کی عمر تک خدمات سرانجام دینی پڑتی ہیں۔
طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد، واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ 23,380 امریکی شہری صہیونی فوج میں شامل ہیں، جن میں سے 10,000 سے زائد کو موجودہ جنگ میں تعینات کیا گیا۔
اگرچہ امریکی حکومت اپنے شہریوں کو غیر ملکی جنگوں میں حصہ لینے کی ترغیب نہیں دیتی، لیکن 1948 سے امریکی یہودیوں کی صہیونی فوج میں شمولیت کی ایک طویل تاریخ ہے۔ امریکی قانون کے تحت، دوست ملک کی فوج میں خدمات انجام دینا جرم نہیں ہے۔
صہیونی لابی پر امریکیوں کا اثر
صہیونی ریاست مقبوضہ فلسطین میں امریکیوں کی موجودگی کو انتہائی اہم سمجھتی ہے، کیونکہ یہ امریکہ میں اسرائیل کے اثر و رسوخ کو بڑھانے میں مدد دیتی ہے اور عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف پابندیوں کے اقدامات کو ناکام بناتی ہے۔
امریکی شہریوں کی کثیر تعداد کی موجودگی صہیونی لابی کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ 1990 کی دہائی میں بِل کلنٹن کے دور سے لے کر اب تک، دو ریاستی حل کو تسلیم کیا جا چکا ہے، لیکن صہیونی لابی کی وجہ سے اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
صہیونی لابی کے گہرے اثرات کی وجہ سے، کوئی بھی امریکی صدر اسرائیل پر دو ریاستی حل کے لیے موثر دباؤ نہیں ڈال سکا، نہ ہی وہ مقبوضہ علاقوں میں بستیاں بند کرنے کی شرط پر واشنگٹن کی فوجی یا سفارتی حمایت کو مشروط بنا سکا۔

مشہور خبریں۔

جوان ہوں لیکن منگنی نہیں کی، مہوش حیات کی ویڈیو وائرل

?️ 19 فروری 2024کراچی: (سچ خبریں) اداکارہ مہوش حیات نے کہا ہے کہ اگرچہ وہ

اڈیالہ جیل انتظامیہ کا بشریٰ بی بی کو جیل منتقل کرنے سے انکار

?️ 22 فروری 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد ہائیکورٹ میں توشہ خانہ کیس میں

مخصوص نشستوں کا نظرثانی کیس: سنی اتحاد کونسل کے وکیل کا آئینی بینچ پر اعتراض

?️ 13 مئی 2025اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں زیر سماعت

برکس اجلاس کے اہم ترین نکات

?️ 25 اگست 2023سچ خبریں:اس اجلاس کے آخری بیان میں، برکس گروپ نے اس گروپ

صیہونی ٹیم کی حمایت میں اماراتی چینل کا غیر پیشہ ورانہ اقدام

?️ 10 نومبر 2024سچ خبریں:اماراتی چینل اسکائی نیوز نے آمستردام میں صیہونی ٹیم کے حامیوں

پی سی بی چیئرمین کو ستانے لگی کرسی کی فکر

?️ 1 مارچ 2021کراچی{سچ خبریں} پاکستان کرکٹ بورڈ {پی سی بی} کے چیئرمین احسان مانی

امریکہ کا شام کے ساتھ 12 سال بعد سفارتی رابطہ

?️ 21 دسمبر 2024سچ خبریں:امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ ایک

فضائی بندش کا خاتمہ؛ پی آئی اے کا آپریشن بحال ہونا شروع

?️ 10 مئی 2025اسلام آباد (سچ خبریں) ترجمان پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز نے کہا ہے کہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے