سچ خبریں:پیغمبر اسلام ص کی عید مبعث کے موقع پر حکومتی عہدیداروں، اسلامی ممالک کے نمائندوں اور سفیروں اور بین الاقوامی قرآنی مقابلوں میں شریک مہمانوں کے ایک گروپ نے آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں پیغمبر اکرم ص کے عظیم اور انمول خزانوں سے استفادہ کو تمام مسائل کا علاج اور امت اسلامیہ کے لیے دنیا و آخرت کی سعادت کے حصول کا راستہ قرار دیا اور فرمایا کہ اگر اسلامی ممالک رسول کی تعلیمات پیروی کریں تو شیطانی صیہونی حکومت ملت اسلامیہ کی آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں پر اس طرح ظلم کرنا ممکن نہیں کر سکتی تھی یقیناً ملت ایران اور اسلامی نظام ان کی تکمیل کرتے رہیں گے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ملت ایران اور دنیا کے مسلمانوں کو اس بابرکت عید کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس مشن کو انسانیت کے لیے خدا کا سب سے بڑا اور قیمتی تحفہ اور نعمت قرار دیا اور اس مشن کے خزانوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔ حضور ص نے فرمایا کہ توحید اور خدا کے علاوہ کسی کی غلامی سے آزادی، سب سے بڑا خزانہ بعثت کا ہے کیونکہ تاریخ میں ہر جنگ، جرم اور فساد خدا کے سوا کسی اور کی بندگی سے پیدا ہوا ہے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ بعثت کے خزانوں کو نہ پہنچاننا، ان کے سلسلے میں کفران نعمت کرنا اور عمل کے بجائے صرف زبان سے ان پر فخر کرنا، اس بیکراں نعمت کے سلسلے میں انسانی معاشروں کا غلط رویہ رہا ہے اور تفرقہ، پسماندگی اور دوسری متعدد علمی و عملی کمزوریاں، بعثت کے سلسلے میں اس روئے کا نتیجہ ہیں۔
ایرانی سپریم لیڈر نے تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں انسانی معاشرے کے سب سے بڑے تمدن کی تشکیل کو قرآن مجید کی تعلیمات پر کسی حد تک عمل آوری کا نتیجہ بتایا اور کہا کہ آج بھی اگر بعثت اور قرآن کی بے نظیر صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے تو عالم اسلام کی کمزوریاں ختم ہو جائيں گي اور اس کی سعادت و پیشرفت کی راہ ہموار ہو جائے گي۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مسئلۂ فلسطین کو امت اسلامی کی اہم کمزوریوں اور زخموں میں سے ایک بتایا اور کہا: ایک ملک اور ایک قوم، عالم اسلامی کی نظروں کے سامنے ایک وحشی، خبیث اور شر پسند حکومت کے بے انتہا اور روزانہ کے مظالم کا نشانہ بن رہی ہے اور اسلامی حکومتیں اتنی دولت و ثروت، صلاحیت اور توانائي کے باوجود صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں بلکہ بعض اسلامی حکومتیں تو خاص طور پر حالیہ کچھ برسوں کے دوران اس خونخوار حکومت سے تعاون بھی کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے ملکوں کی کمزوری، صیہونیوں سے تعاون اور ان کے جرائم پر خاموشی کا نتیجہ ہے اور صورتحال یہاں تک پہنچ گئي ہے کہ امریکا، فرانس اور کچھ دوسرے ممالک، مسلمانوں کے مسائل کے حل کے دعوے کے ساتھ، عالم اسلام میں مداخلت کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں جبکہ وہ خود ہی اپنے ملکوں کو چلانے اور اپنے ملکوں کے مسائل کو حل کرنے میں لاچار اور ناتواں ہیں۔
آيت اللہ خامنہ ای نے زور دے کر کہا کہ اگر پہلے ہی دن اسلامی ملکوں نے نجف کے بزرگ علماء سمیت خیر خواہوں کی بات مانی ہوتی اور غاصب حکومت کے سامنے مضبوطی سے ڈٹ گئے ہوتے تو آج قطعی طور پر مغربی ایشیا کے علاقے کی صورتحال دوسری ہوتی اور اسلامی امت زیادہ متحد اور مختلف پہلوؤں سے زیادہ طاقتور ہوتی۔
انہوں نے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اسلامی جمہوریہ کے صریحی اور اعلانیہ موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی نظام کو کسی سے تکلف نہیں ہے اور وہ فلسطینی قوم کی کھلی حمایت کے ساتھ ہی جس طرح سے بھی ممکن ہو اس کی مدد کرے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کی جانب سے فلسطین کی حمایت کے سبب دشمنوں کی طرف سے ایرانوفوبیا پر توجہ مرکوز کیے جانے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ وہ حکومتیں بھی، جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی فلسطینی قوم کی مدد کریں ایران وفوبیا پھیلا کر اسلام کے دشمن کی آواز سے آواز ملا رہی ہیں۔ انھوں نے مسلم اقوام کے بعثت کی تعلیمات، اتحاد اور ہمدلی کی جانب واپس لوٹنے اور مسلم حکومتوں کی جانب سے دکھاوے نہیں بلکہ حقیقی تعاون کو، امت مسلمہ کی تمام مشکلات کا حل بتایا۔
آيت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں ایک بار پھر ترکیہ اور شام میں آنے والے حالیہ خطرناک زلزلے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے جس میں بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے کہا کہ فلسطین اور امریکا کی مداخلت جیسے سیاسی مسائل کی اہمیت پر ہر حالت میں توجہ دی جانی چاہیے اور امت مسلمہ کو اس پر نظر رکھنی چاہیے۔
انسانوں اور انسانی معاشروں کو کسی بھی قسم کی بدعنوانی سے آزاد کرنے کی دوا کے طور پر کھیتی اور تعلیم کا مطلب ہے انفرادی اور معاشرتی زندگی کو خدائی رہنمائی اور احکامات کے تحت رکھنا اورحکمت کا مطلب ہے انسانی زندگی کو عقل اور حکمت کے ساتھ منظم کرنا یہ پیغمبر کا آخری مشن تھا ۔