لاہور: (سچ خبریں) مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت وفاقی اور پی ٹی آئی کی زیر قیادت پنجاب حکومتوں کے درمیان پنجاب کے چیف سیکریٹری کی تعیناتی پر ڈیڈلاک تین ہفتوں سے برقرار ہے کیونکہ موجودہ چیف سیکریٹری انتظامی معاملات پر وزیر اعلیٰ سے اختلافات کے باعث چھٹی پر چلے گئے تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف سیکریٹری کامران علی افضل 17 ستمبر کو دو ہفتے کی ‘احتجاجی رخصت’ پر چلے گئے تھے کیونکہ وہ اپنی مہر کے تحت ڈپٹی کمشنرز، کمشنرز اور انتظامی سیکریٹریوں کے تبادلوں اور تعیناتیوں کے احکامات جاری کرنے پر خوش نہیں تھے۔
حالانکہ رولز آف بزنس وزیر اعلیٰ کو افسران کے تبادلوں اور تقرر کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔
زبانی درخواستوں کے علاوہ کامران علی افضل نے ‘ذاتی وجوہات’ کا حوالہ دیتے ہوئے ایک رسمی خط لکھا تھا کہ پنجاب سے ان کی خدمات واپس لے لی جائیں، میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں اپنی موجودہ ذمہ داری کو جاری رکھوں۔
ان کی غیر موجودگی میں چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ بورڈ عبداللہ خان سنبل کو 30 ستمبر تک چیف سیکریٹری کے دفتر کے معمول کے کام کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
باقاعدہ چیف سیکریٹری کی تعیناتی کے فیصلے کی وجہ سے کامران افضل کی لی گئی چھٹی میں مزید ایک ہفتے کی توسیع کردی گئی تھی اور عبداللہ سنبل کو 7 اکتوبر (آج) تک کا اضافی چارج دے دیا گیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت پنجاب حکومت کے سفارش کردہ تین افسران میں سے کسی کو بھی تعینات کرنے سے گریزاں ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ وفاقی حکومت نے چیف سیکریٹری پنجاب کے عہدے پر تعیناتی کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب کے تجویز کردہ افسران کے علاوہ چند دیگر افسران کے بھی انٹرویو کیے لیکن پھر مکمل خاموشی ہوگئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت بھی اس بات پر زور دے رہی ہے کہ چیف سیکریٹری کا انتخاب اس کے اپنے پینل سے کیا جائے۔
وفاقی حکومت کو بھیجے گئے پنجاب حکومت کے پینل میں سیکریٹری کابینہ احمد نواز سکھیرا، پی اینڈ ڈی بورڈ کے چیئرمین عبداللہ خان سنبل اور سابق ایس ایم بی آر بابر حیات تارڑ شامل ہیں۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ احمد سکھیرا سیکریٹری کابینہ کے طور پر کام کرنے کے بعد پنجاب کے چیف سیکریٹری کا عہدہ سنبھالنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، معلوم ہوا ہے کہ وہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس گروپ کے سب سے سینئر افسر ہیں اور آئندہ سال کے آغاز میں ریٹائرمنٹ کی عمر مکمل ہونے پر سروس سے ریٹائر ہو جائیں گے۔
مبینہ طور پر بابر حیات تارڑ اور عبداللہ سنبل کے درمیان ٹائی ہے کیونکہ ذرائع کا خیال ہے کہ اس سے قبل کم از کم دو گریڈ 21 کے افسران کو پنجاب کے چیف سیکریٹری کے طور پر تعینات کیا گیا تھا، جنہیں بعد میں دفتر میں رہتے ہوئے گریڈ 22 میں ترقی دی گئی تھی۔
اسی طرح وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے درمیان کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلے اور تعیناتی پر بھی ڈیڈ لاک ہے۔
اگرچہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے ان کے تبادلے کے احکامات 20 ستمبر کو سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے تھے، لیکن یہ باضابطہ طور پر گزشتہ ہفتے کے اوائل میں پنجاب حکومت تک پہنچے تھے۔
اس کے بعد فوری طور پر پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کو ٹرانسفر آرڈرز منسوخ کرنے کے لیے خط لکھا اور کہا کہ ان کی خدمات پنجاب میں درکار ہیں۔