اسلام آباد(سچ خبریں)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی جانب سے سیاسی مخالف اور سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کو وطن واپس آنے پر حکومت کی جانب سے سہولت فراہم کرنے کے بیان کے بعد حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کے سینیٹرز کی جانب سے بحث کی گئی کہ آیا سابق صدر کو وطن واپس آنے کی اجازت دی جانی چاہیے یا نہیں۔
یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ مشرف کی واپسی کا فیصلہ ہم نہیں کریں گے، یہ فیصلے کہیں اور ہوں گے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا، ایوان بالا میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی وطن واپسی کا معاملہ زیر بحث آنے پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ یہ فیصلہ ہم نہیں کریں گے یہ فیصلے کہیں اور ہوں گے، جب وہ باہر گئے تھے تو کیا آپ روک سکے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب وہ واپس آئیں گے تو کیا آپ روک سکیں گے، اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ ایک فضول عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں جیل میں رہا ہوں لیکن جب میں وزیر اعظم بنا تو انہوں نے ہی میرا حلف لیا تھا، جب پرویز مشرف یہاں تھے تو میں نے انہیں معاف کردیا تھا، اگر وہ آنا چاہتے ہیں تو آجائیں پاکستان ان کا گھر ہے، ہمیں ان کی واپسی پر کوئی اعتراض ہے لیکن سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے۔
دورانِ اجلاس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پرویز مشرف اس ملک کے باشندے ہیں، وہ بیمار ہیں، اگر آنا چاہتے ہیں تو انہیں آنے دینا چاہیے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ پرویز مشرف کو واپس لانے کی باتیں ہو رہی ہیں، اس سے متعلق میاں نواز شریف کا بھی بیان آیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ملک اور آئین کے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے، ہم مجبور ہیں ہمارے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں اور ہم عملاً غلام ہیں۔
پرویز مشرف کے دور حکومت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ 10 سالوں تک سیاہ و سفید کے مالک رہے، انہوں نے 2 بار آئین توڑا اور عدلیہ پر شب خون مارا۔
مشتاق احمد نے کہا کہ ان کے دور میں سابق چیف جسٹس کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا، اس سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا فیصلہ موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کو فروخت کردیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم کے 140 ارب روپے کا نقصان کیا۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ ملک کے تمام شہری اپنے جرائم پر قانون کا سامنا کریں، انہیں واپس لایا جائے تاکہ وہ بھی قانون سامنا کریں، میں نواز شریف سے بھی کہتا ہوں کہ وہ بھی آئیں اور قانون کا سامنا کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پرویز مشرف کو لایا جاتا ہے تو پھر جیلوں کے دروازے کھول دیں، عدالتوں کو بند کردیں کیونکہ اس امر کے بعد عدالتوں اور اس ایوان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
سینیٹر اعجاز چوہدری نے کہا کہ پرویز مشرف یا جو لوگ دو ہفتوں کا کہہ کر ملک سے گئے تھے، انہیں واپس آنا چاہیے، میں پرویز مشرف کی واپسی کا مخالف نہیں ہوں، واپس آئیں لیکن قانون کو اپنا راستہ اپنانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر شخص کے لیے ایک جیسا قانون ہو تو ہی ملک آگے بڑھ سکتا ہے۔
دوران اجلاس خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ اس وقت وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں، اس وقت اگر ہم یہ کہیں کہ وہ وطن واپس نہ آئے تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔
اس معاملے پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی ہمیشہ سے روایت رہی ہے کہ چاہے کوئی بڑے سے بڑا آمر ہی کیوں نہ ہوں اگر وہ انتقال کر جائے تو اس پر خوشی کا اظہار نہیں کرتے، لہٰذا پرویز مشرف کو ملک میں آنے کی اجازت دینی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے آئین توڑا اور ان کے خلاف عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے، لیکن اگر وہ انتقال کر جاتے ہیں تو انہیں ملک میں دفن کرنے کی اجازت دینی چاہیے، یہ ان کا حق ہے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جانب سے ایوان بالا کا اجلاس 16 جون صبح 10 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔