اسلام آباد: (سچ خبریں) نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ بھارتی سکھ برادری کے لیے ویزا فری آمد کے لیے کرتارپور راہداری کھولنے سمیت پاکستان کی جانب سے کیے گئے مثبت اور امن و آشتی کے اقدامات کا جواب بھارت کی جانب سے منفی انداز میں دیا گیا ہے۔
نیویارک میں منعقدہ ایشیا سوسائٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ پرامن اور باہمی تعاون پر مبنی ہمسایہ تعلقات کا خواہشمند ہے۔
یہ کانفرنس ان متعدد پروگرامز میں سے ایک ہے جن میں نگران وزیر خارجہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر شرکت کر رہے ہیں۔
جلیل عباسی جیلانی اور نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ پاکستان کی نمائندگی کے لیے امریکا میں موجود ہیں۔
نگران وزیر خارجہ نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات اور اس کی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں معصوم کشمیریوں کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف بدتر ہوئی صورتحال نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔
جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ اس طرح کے پیچیدہ ماحول میں ملکی انتخابات کے لیے بھارت کی جارحیت اور پاکستان مخالف بیانیہ دونوں ممالک کو علاقائی امن و استحکام کے مقاصد سے مزید دور لے جا رہے ہیں جب کہ مقبوضہ جموں و کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل پرامن تعمیری بات چیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ایسے افغانستان میں سب سے زیادہ فائدہ ہے جو پرامن ہو اور جس کے اپنے علاقائی اور عالمی شراکت داروں کے ساتھ پرامن تعلقات ہوں۔
انہوں نے کہا کہ افغان عبوری حکومت کے ساتھ براہ راست رابطے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے معاملے پر عالمی برادری کے ساتھ تعاون کرنے کی ہماری کوششوں کا یہ مرکزی مقصد میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں تقریباً 40 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں، یہ کام ہم تقریباً چار دہائیوں سے کر رہے ہیں، افغان حکام اور عالمی برادری اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ جب بھی حالات ٹھیک ہوں تو یہ افغان مہاجرین اپنے ملک افغانستان کی معاشی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے واپس لوٹ جائیں۔
نگران وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم بھی افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال خاص طور پر خواتین کے حقوق، لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی ملازمت سے متعلق مسائل پر عالمی برادری کی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت افغان انتظامیہ کے ساتھ ان معاملات کو اٹھاتی رہے گی لیکن عالمی برادری کو امداد کو سیاسی تحفظات سے علیحدہ کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سخت اقدامات کے بجائے افغان عبوری حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے سے نتائج ملنے کا امکان بہت زیادہ ہے، افغانستان میں انسانی بحران کو ٹالنا بھی اتنا ہی ضروری ہے، اس مقصد کے لیے میں سمجھتا ہوں کہ امداد کو سیاسی معاملات سے الگ کرنا کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
جلیل عباس جیلانی نے زور دے کر کہا کہ پاکستان دہشت گردی کی ہر شکل کی مذمت کرتا ہے اور دہشت گردی کے مسئلے کو بعض ممالک، برادریوں، خطے اور مذہب سے جوڑ کر اسے سیاسی رنگ دینے کی ہر کوشش کو مسترد کرتا ہے۔
افغانستان سے سرحد پار سے ہونے والے پرتشدد حملوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جلیل عباس جیلانی نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور داعش سے ہے جب کہ یہ تنظمیں پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے پر افغان عبوری انتظامیہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں جب کہ دہشت گردوں کے خلاف لڑنے اور ان کو شکست دینے کے لیے پرعزم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس بات کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں قدم جمانے کی کوشش کرنے والی دہشت گرد تنظیموں کو پڑوسی ممالک اور پوری عالمی برادری کے لیے خطرہ سمجھا جانا چاہیے۔
یوکرین کی جنگ پر بات چیت کرتے ہوئے نگران وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستانی مؤقف اس کے تنازعات کے پرامن حل اور اقوام متحدہ کے اصولوں، علاقائی سالمیت و خود مختاری کے احترام پر یقین کے تحت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جنگ کے خاتمے اور یوکرینی عوام کے مصائب کو کم کرنے میں مدد کے لیے تعمیری کردار ادا کرتے رہیں گے، امید کرتے ہیں کہ امن قائم ہوجائے گا تاکہ روس اور یوکرین کے عوام کو اس کے فوائد سے لطف اندوز ہوسکیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عالمی سطح پر غذائی تحفظ اور توانائی کے شعبے پر یوکرین۔روس کے بحران کے اثرات کو کم کرنا بہت اہم ہے اور انہوں نے امید ظاہر کی کہ بحیرہ اسود سے اناج کی ترسیل جلد از جلد دوبارہ شروع ہوگی۔