قومی سلامتی کا ڈھانچہ از سر نو ترتیب دے دیا گیا، 1976 کے بعد سب سے بڑی تبدیلی

?️

اسلام آباد: (سچ خبریں) قومی سلامتی کے ڈھانچے کو ازسرِنو ترتیب دے دیا گیا ہے، ملک کی ہائر ڈیفنس آرگنائزیشن (ایچ ڈی او) میں 1976 کے بعد سے کی جانے والی یہ سب سے بڑی تبدیلی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع تجزیاتی رپورٹ کے مطابق تجویز کردہ ازسرِ نو تشکیل آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم اور آرمی، ایئر فورس اور نیوی سے متعلق قوانین میں بعد میں کی گئی تبدیلیوں کے ذریعے متعارف کرائی گئی، جن کے حامی اسے جدیدیت قرار دیتے ہیں، جب کہ ناقدین اسے مرکزیت کی طرف خطرناک جھکاؤ کہتے ہیں۔

اس نئے نقشے کے مرکز میں ایک ہی عہدہ ہے اور وہ ہے آرمی چیف کا عہدہ، جو جلد ہی ’چیف آف ڈیفنس فورسز‘ (سی ڈی ایف) بھی ہوگا۔

یہ دوہرا عہدہ مسلح افواج میں ملٹی ڈومین انضمام، تنظیمِ نو اور مشترکہ صلاحیت پیدا کرنے کے حوالے سے بے مثال اختیارات رکھتا ہے، قانون میں ترمیم کے مبہم الفاظ یہ سوال پیدا کرتے ہیں کہ سی ڈی ایف کا کردار کون طے کرے گا، خواہ وہ مشترکہ فورس کے انضمام سے متعلق ہو یا ساختی اصلاحات کے حوالے سے ہو، اور ظاہر ہے کہ اس کے لیے پارلیمانی منظوری کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔

قانون سازی کے ذریعے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ بھی ختم کردیا گیا ہے، یہ وہ سہ رُکنی (ٹرائی سروسز) عہدہ تھا، جو 1971 کی جنگ کے تلخ تجربات کے بعد بنایا گیا تھا، جب نیوی کو جنگ کے آغاز کا ریڈیو کی خبروں سے پتا چلا تھا اور پاکستانی بحری جہاز ’خیبر‘ بھارتی میزائل کے حملے میں ڈوب گیا تھا۔

اس عہدے کا خاتمہ 27 نومبر سے مؤثر ہوگا، جو کم از کم جنگی حالات کے دوران تینوں افواج کی مشترکہ نمائندگی کے تقریباً 5 دہائیوں پر مبنی تسلسل کے خاتمے کے مترادف ہے۔

حکومت اور فوج نے نئی کمانڈ ساخت کو ’عملی ضرورت‘ کے طور پر پیش کیا ہے، جدید جنگیں ڈیجیٹل رفتار سے چلتی ہیں، سائبر، خلا، ڈرونز اور اطلاعاتی کارروائیاں روایتی سروسز کی سرحدوں کو نہیں مانتیں، لیکن پاکستان دہائیوں سے ایچ ڈی او کے ساتھ رہ رہا تھا، جسے ماہرین ’تحقیقی دور کا باقیہ‘ اور ’ساختی طور پر کھوکھلا‘ قرار دیتے تھے، اس لحاظ سے اصلاحات ناگزیر تھیں۔

لیکن اصلاحات کیسے کی جاتی ہیں، یہ اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ یہ کہ کیوں کی جاتی ہیں۔

امریکا کے گولڈ واٹر–نکولز ایکٹ یا بھارت کے سی ڈی ایس ماڈل کی طرح اختیارات کو مشترکہ کمانڈ میں تقسیم کرنے یا ایک غیر جانبدار کوآرڈینیٹنگ چیف کو طاقت دینے کے بجائے، اس اصلاح نے ’جوائنٹ نس‘ کا تمام بوجھ آرمی چیف کے دفتر میں مرکوز کر دیا ہے۔

ایک سابق جنرل نے کہا کہ یہ بوجھ مشترکہ سروسز کے درمیان نہیں کیا جارہا، بلکہ ان کے اوپر قائم کیا جارہا ہے۔

پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ایئر چیف مارشل عباس خٹک نے ’ڈان‘ سے گفتگو میں کہا کہ تاریخی تجربہ اس حقیقت کی گواہی دیتا ہے کہ زمینی، سمندری اور فضائی افواج کا آزادانہ اسٹیٹس انتہائی مؤثر ثابت ہوا ہے، یہ ماڈل مغربی افواج میں برسوں کی تحقیق و مباحثے کے بعد اختیار کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کیا ہم اب اس عالمی طور پر تسلیم شدہ اور آزمودہ طریقے سے انحراف کرتے ہوئے اُس پرانے ماڈل کی طرف بغیر کسی جامع قومی مباحثے کے واپس جا رہے ہیں، جسے دوسری اقوام نے سخت تجربات کے بعد ترک کردیا تھا؟

ان کا کہنا تھا کہ نئے نظام کے تحت تقریباً ہر اعلیٰ عسکری تقرری چیف آف آرمی اسٹاف-چیف آف ڈیفنس فورسز کی سفارش سے مشروط ہوگئی ہے، نیا قائم کردہ کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ (سی این ایس سی) جوہری اثاثوں کی نگرانی کرے گا، اس کی تقرری، توسیع اور مدتِ ملازمت کا مکمل اختیار بھی سی ڈی ایف کی سفارش سے منسلک ہے اور اس عمل کو عدالتی نظرثانی سے مکمل طور پر باہر کر دیا گیا ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ جوہری کنٹرول کی سول ملٹری ساخت یکسر بدل گئی ہے، نیشنل کمانڈ اتھارٹی (این سی اے) اب بھی سول قیادت کے ماتحت ہے، لیکن اس کا جھکاؤ بلاشبہ فوج، بالخصوص آرمی کے حق میں مزید بڑھ گیا ہے، حالانکہ جوہری ڈیلیوری سسٹمز تینوں سروسز میں موجود ہیں، موجودہ اسٹریٹجک کمانڈز کو یکجا کرکے نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کے تحت کردیا جائے گا۔

ایئر یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر عادل سلطان نے تشویش ظاہر کی کہ سی ڈی ایف اور نئے نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کے ممکنہ کمانڈر (دونوں آرمی سے ہوں گے) اور سی ڈی ایف دیگر 2 سروس چیفس پر سینئر بھی ہوگا، ایسے میں سوال یہ ہے کہ تینوں سروسز کے درمیان باریک توازن اور این سی اے میں سول ملٹری توازن کس طرح برقرار رہے گا؟

ایسے میں قانون کی دفعہ 8 ای (2) نے فوراً توجہ حاصل کی ہے، کیونکہ اس میں عدالتی نظرثانی کو مکمل طور پر خارج کردیا گیا ہے، یہ شق کہتی ہے کہ سی این ایس سی کی تقرری یا توسیع کسی بھی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر چیلنج نہیں کی جاسکے گی، قانونی ماہرین کے مطابق یہ الفاظ آئین کے آرٹیکلز 4، 9 اور 199 سے متصادم ہیں۔

سابق فوجی لا افسر کرنل (ر) انعام الرحیم نے کہا کہ سپریم کورٹ متعدد فیصلوں میں قرار دے چکی ہے کہ فوجی حکام کی کوئی بھی کارروائی اگر اختیار سے باہر، بدنیتی پر مبنی یا غیرقانونی ہو تو عدالتوں میں چیلنج ہوسکتی ہے۔

اگرچہ ایئر فورس اور نیوی کے سربراہان کی تقرری براہِ راست سی ڈی ایف کی سفارش سے مشروط نہیں کی گئی، لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ نئے سسٹم کا ڈیزائن ایسا ہے کہ فور اسٹار تقرریاں سی ڈی ایف کی مشاورت ہی سے ہوں گی، تھری اسٹار اور اس سے نیچے کے عہدے اپنے اپنے سروس چیفس کریں گے۔

پاکستان آرمی ایکٹ

آرمی ایکٹ کی دفعہ 176C میں ایک اہم مگر باریک تبدیلی چیف آف آرمی اسٹاف (سی او اے ایس)۔ چیف آف ڈیفنس فورسز (س ڈی ایف) کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اختیارات کس طرح اور کن کو تفویض کریں، یہ خود طے کرے، اب ڈپٹی یا وائس چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری صرف اسی وقت ہوسکے گی جب سی ڈی ایف اس کی سفارش کرے، پہلے یہ اختیار حکومت کے پاس تھا۔

ایک عسکری ذرائع نے کہا کہ موجودہ آرمی چیف فی الحال وائس چیف تعینات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

دفعہ 176A میں ترمیم فیلڈ مارشل کے عہدے کی آئینی بالادستی کو برقرار رکھتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ اگر کوئی تضاد ہو تو آئین کا آرٹیکل 243 حتمی اتھارٹی ہوگا۔

قانونی ماہر عمر فاروق آدم کے مطابق کہ اگر فیلڈ مارشل سے متعلق آرمی ایکٹ اور آئین میں تضاد ہو تو آرٹیکل 243 ہی نافذ العمل ہوگا۔

حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ اصلاحات ’مرکزیت نہیں بلکہ وضاحت‘ ہیں، ان کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس کا عہدہ محض رسمی بن چکا تھا، دہرے ڈھانچے ختم کرنا ضروری تھا اور عالمی ماڈلز ایک مرکزی اسٹریٹجک انٹیگریٹر پر زور دیتے ہیں، جزوی طور پر یہ درست بھی ہے کیونکہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (سی جے سی ایس سی) کے پاس حقیقی اختیار تھا نہ آپریشنل کمانڈ تھی۔

لیکن جدیدیت کا مطلب یہ ہے کہ سروس چیفس کی طاقت کم کی جائے اور مضبوط مشترکہ ادارے بنائے جائیں، نہ کہ ایک منصب کو انتہائی طاقتور بنا دیا جائے، نیا ماڈل اس کے برعکس ہے، اختیارات اوپر ایک ہی آفس میں جمع ہورہے ہیں، جس کی مدت بھی بڑھ کر کم از کم 2030 اور ممکنہ طور پر 2035 تک ہوسکتی ہے۔

اس طرح ایک ایسا نظام وجود میں آتا ہے جو اصلاح کے بجائے زیادہ تر اس عہدے پر بیٹھنے والے شخص کی شخصیت اور ترجیحات پر منحصر ہوجاتا ہے۔

اسی وقت جب بحری اور فضائی خطرات بڑھ رہے ہیں، نیوی اور ایئر فورس کا فیصلہ سازی میں کردار کم دکھائی دیتا ہے۔

ایئر چیف مارشل (ر) عباس خٹک کہتے ہیں کہ جدید فضائی افواج کسی ماتحت یا ثانوی بازو کے طور پر مؤثر طریقے سے کام نہیں کرسکتیں، سوال ادارہ جاتی انا کا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ آیا پاکستان آزمودہ عالمی ماڈلز کو اپناتا ہے یا ان پرانے طریقوں پر واپس جاتا ہے جنہیں دنیا نے ترک کر دیا۔

یہ ’جوائنٹ نیس‘ کے خلاف دلیل نہیں ہے، ملک کی افواج کو واقعی جوائنٹ نیس کی شدید ضرورت ہے، مربوط کمانڈ اسٹرکچرز، ایک مضبوط سول قیادت والی وزارتِ دفاع، اور واضح نگرانی کا نظام درکار ہے جو قومی سلامتی کی منصوبہ بندی کو مربوط کریں، جدید افواج کو وہی چاہیے جو ہر جدید فوج کو چاہیے، یعنی افراد سے زیادہ مضبوط ادارے۔

سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ریٹائرمنٹ کے وقت کہا تھا کہ میں اس عمومی رائے سے متفق ہوں کہ ادارے اور روایات افراد سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں اور انہیں ہی فوقیت حاصل ہونی چاہیے۔

مشہور خبریں۔

امریکی طاقت رو بہ زوال

?️ 20 نومبر 2023سچ خبریں:امریکہ گزشتہ چند سالوں میں اور دنیا کی معاشی صورتحال کے

ڈیرہ اسمٰعیل خان: پولیس چوکی پر دہشت گردوں کا حملہ، کانسٹیبل زخمی

?️ 5 مارچ 2023خیبر پختونخوا: (سچ خبریں) خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسمٰعیل خان کے

یوکرین جنگ پر مغرب کے پاس اتحاد کا فقدان: زیلینسکی

?️ 25 مئی 2022سچ خبریں:  یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی جو اپنے ملک کی حمایت

کراچی میں اینٹر کے امتحانات آج سے شروع

?️ 26 جولائی 2021کراچی(اسچ خبریں) تفصیلات کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر میں انٹر کے

پاکستان دہشتگرد تنظیم ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں کر رہا، ترجمان دفتر خارجہ

?️ 4 اپریل 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا

بھارتی یوم آزادی بھی کشمیریوں کے لیے دردسر

?️ 10 اگست 2023سچ خبریں: بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مودی حکومت

 یہ تل ابیب ہے یا غزہ؟

?️ 18 جون 2025 سچ خبریں:ایران کی جانب سے صہیونی جرائم کے جواب میں شروع

مسجد النبی کے امام پاکستان کے دورے پر

?️ 9 اگست 2024سچ خبریں: مسجد النبی کے امام فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صلاح بن محمد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے