اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان نے ایران کی جانب سے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے 48 گھنٹے سے بھی کم وقت کے اندر آج علی الصبح ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا جس میں متعدد دہشت گرد مارے گئے۔
وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’پاکستان نے جمعرات کی صبح ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں انتہائی مربوط اور مخصوص اہداف کے خلاف مہارت سے فوجی کارروائیوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، ’مرگ بر سرمچار ’ کے نام سے خفیہ اطلاعات پر مبنی آپریشن میں متعدد دہشت گرد مارے گئے۔
دفتر خارجہ کے مطابق دہشت گردانہ سرگرمیوں کی مصدقہ معلومات کی روشنی میں آپریشن کیا گیا۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ حملے میں 3 خواتین، 4 بچوں سمیت 9 افراد ’تمام غیر ایرانی‘ مارے گئے۔ پاکستانی ناظم الامور کو ایرانی وزارت خارجہ طلب کرلیا گیا۔ پاکستانی حملہ ایران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کم کرنے کے بعد کیا گیا۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ ایران کی جانب سے فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تحقیقات جاری ہیں۔ نگران وزیر اعظم، وزیر خارجہ کا غیر ملکی دروہ مختصر کرنے کا فیصلہ آئی ایس پی آر نے کہا کہ ایران میں بلوچستان لبریشن آرمی، لبریشن فرنٹ کے ٹھکانوں کونشانہ بنایا گیا۔ چین کی پاکستان، ایران کے درمیان ثالثی کی پیشکش
ترجمان دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق گزشتہ کچھ سالوں کے دوران پاکستان ایران کے ساتھ اپنے رابطوں میں پاکستانی نژاد دہشت گردوں، جو خود کو سرمچار کہتےہیں، کے ایران کے اندر حکومتی عملداری سے باہر علاقوں میں محفوظ ٹھکانوں کے بارے میں اپنی تشویش سے مسلسل آگاہ کرتا رہا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے ان دہشت گردوں کی موجودگی اور ان کی سرگرمیوں کے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ کئی ڈوزیئرز بھی ایران کے ساتھ شیئر کیے، تاہم ہمارے سنگین تحفظات پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے یہ نام نہاد سرمچار بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہاتے رہے۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ یہ کارروائی ان نام نہاد سرمچاروں کی طرف سے ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ کارروائیوں کے بارے میں مصدقہ انٹیلی جنس کی روشنی میں کی گئی۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق یہ کارروائی پاکستان کے تمام خطرات کے خلاف اپنی قومی سلامتی کے تحفظ اور دفاع کے غیر متزلزل عزم کا اظہار ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ اس انتہائی پیچیدہ آپریشن کا کامیاب انعقاد بھی پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے، پاکستان اپنے عوام کے تحفظ اور سلامتی کے لیے تمام ضروری اقدامات کرتا رہے گا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان، ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا مکمل احترام کرتا ہے، آج کے عمل کا واحد مقصد پاکستان کی اپنی سلامتی اور قومی مفاد کے لیے تھا جو ہمارے لیے سب سے مقد م ہے اور جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کے ایک ذمہ دار رکن کے طور پر پاکستان رکن ممالک کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری سمیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور مقاصد کی پاسداری کرتا ہے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ ان اصولوں کی روشنی میں اور بین الاقوامی قانون کے اندر اپنے جائز حقوق کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کبھی بھی اپنی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کو کسی بھی جواز یا حالات میں چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
ترجمان مزید نے کہا کہ ایران برادر ملک ہے اور پاکستانی عوام ایرانی عوام کے لیے بے حد احترام اور محبت رکھتے ہیں، ہم نے ہمیشہ دہشت گردی کی لعنت سمیت مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بات چیت اور تعاون پر زور دیا ہے اور ہم مشترکہ حل تلاش کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔
دوسری جانب، ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ’ارنا‘ نے ابتدائی طور پر اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ اس کے جنوب مشرقی سرحدی علاقے ہونے والے پاکستانی حملوں میں کم از کم 3 خواتین اور 4 بچے مارے گئے، بعد ازاں اس نے مرنے والوں کی تعداد 9 بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حملے میں 2 مرد بھی مار گئے۔
ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے صوبہ سیستان و بلوچستان کے نائب صوبائی گورنر علی رضا مرہماتی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ایران کے ایک سرحدی گاؤں پر میزائلوں سے حملہ کیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’اس حملے میں 3 خواتین اور 4 بچے مارے گئے جو تمام غیر ایرانی شہری تھے، انہوں نے مزید کہا کہ حملے میں پاکستان کی سرحد کے قریب واقع شہر سراوان کے قریب موجود ایک گاؤں کو نشانہ بنایا گیا۔
ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی ’تسنیم‘ نے رپورٹ کیا کہ ’صوبہ سیستان و بلوچستان کے سرحدی گاؤں پر صبح سویرے ہونے والے پاکستان کے حملے کے بعد تہران میں پاکستانی ناظم الامور کو وضاحت کے لیے وزارت خارجہ میں طلب کرلیا گیا۔‘
بعد ازاں آج ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ اس پیش رفت کے بعد نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنا دورہ ڈیووس مختصر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سرکاری دورے پر یوگنڈا میں موجود نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے بھی وطن واپس آنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے مصدقہ اطلاعات پر ایران میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر آپریشن کیا، ملکی سلامتی اور قومی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ حالیہ پیش رفت سے متعلق آپریشنل تفصیلات پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جلد سامنے آئیں گی۔ چین کی پاکستان، ایران کے درمیان ثالثی کی پیشکش
ادھر چین نے کہا کہ وہ حالیہ پیش رفت کے بعد پاکستان اور ایران کے درمیان ثالثی کے لیے تیار ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ایک باقاعدہ پریس کانفرنس میں کہا کہ چین کو پوری امید ہے کہ دونوں فریق تحمل اور بردباری سے کام لیں گے اور کشیدگی میں اضافے سے بچیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر دونوں فریق چاہیں تو ہم کشیدگی کو کم کرنے میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور ایران کے بیجنگ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور یہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اراکین بھی ہیں، جو چین، بھارت اور روس سمیت یوریشیا کے بیشتر حصوں پر پھیلے ہوئے ممالک کی سیاسی اور سیکیورٹی سے متعلق تنظیم ہے۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ایران اور پاکستان ’چین کے دوست اور بہت اثر و رسوخ والے ممالک ہیں۔
پاکستان آرمی نے کہا کہ ایران میں انٹیلیجنس کی بنیاد پر کیے گئے آپریشن کے دوران بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے دہشت گردوں کے زیر استعمال ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کارروائی میں بلوچستان لبریشن آرمی، لبریشن فرنٹ نامی دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال ٹھکانوں کونشانہ بنایا گیا، یہ آپریشن انٹیلیجنس بنیاد پر کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ نشانہ بنائے گئے ٹھکانے استعمال کرنے والے دہشت گردوں میں بد نام زمانہ دوستا عرف چیئرمین، بجر عرف سوغات، ساحل عرف شفق، اصغر عرف بشام اور وزیر عرف وزی سمیت دیگر شامل ہیں۔
واضح رہے کہ 2 روز قبل ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود میں حملے کے نتیجے میں 2 معصوم بچے جاں بحق اور 3 بچیاں زخمی ہو گئی تھیں۔
ایران کی جانب سے پاکستانی حدود میں کارروائی شام اور عراق میں حالیہ دنوں میں ایران کی جانب سے اپنی سرزمین پر حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے ردعمل کے طور پر کیے گئے حملوں کا تسلسل تھا، ان حملوں نے خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کے درمیان علاقائی استحکام سے متعلق تشویش میں اضافہ کیا ہے۔
پاکستان نے اپنی فضائی حدود کی بلااشتعال خلاف ورزی اور پاکستانی حدود میں حملے کی شدید مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ خودمختاری کی خلاف ورزی مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور اس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔
دفتر خارجہ نے ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر ایرانی ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں طلب بھی کیا تھا۔
بعدازاں گزشتہ روز پاکستان نے ایران سے سفیر کو واپس بلانے کا اعلان کردیا، ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے بتایا کہ پاکستان نے ایران کے ساتھ تمام اعلیٰ سطحی تبادلوں کو معطل کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں ایران کے سفیر، جو اس وقت ایران میں ہی ہیں، ان کو بھی پاکستان واپس نہ آنے کا کہہ دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ نگران وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات و پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ کہا کہ قومی خود مختاری کے حوالے سے عالمی قوانین موجود ہیں، ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے معاملے کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔
ایک سوال کے جواب پر نگران وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان کی فضائی حدود کی بلا سبب خلاف ورزی پر ایران سے احتجاج کیا گیا ہے اور پاکستان نے ایران سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے اور پاکستان میں تعینات ایران کے سفیر جو ان دنوں ایران کے دورہ پر ہیں، سے کہا ہے کہ وہ فی الحال واپس نہ آئیں، پاکستان اور ایران کے درمیان جاری یا متوقع دوروں کو بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ابتدائی ردعمل ہے، ایران کے اس غیر قانونی اقدام کی تحقیقات ہو رہی ہیں، قومی خود مختاری کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین بھی موجود ہیں، مجاز ادارے اس پر جو بھی مناسب ردعمل ہوگا، دیں گے۔
دوسری جانب ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ فضائی حملوں میں پاکستان کے کسی شہری کو نہیں بلکہ ایرانی دہشت گرد گروپ جیش العدل کو نشانہ بنایا گیا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورمز کی سائیڈلائنز پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جیش العدل گروپ نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے اور ہم نے اس معاملے پر کئی بار پاکستانی حکام سے بات بھی کی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے لیکن وہ اپنی قومی سلامتی سے سمجھوتہ کرنے یا اس کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں دے گا۔
امیر عبداللہیان نے مزید کہا تھا کہ یہ اقدام جیش العدل گروپ کے ایران پر حالیہ مہلک حملوں کا ردعمل ہے۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ اس حملے سے چند گھنٹے قبل ہی پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ڈیووس فورم پر امیر عبداللہیان سے ملاقات کی تھی۔
گزشتہ روز چین کی وزارت خارجہ نے دونوں ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ تحمل سے کام لیں اور امن و سلامتی برقرار رکھنے کے لیے مل کر کام کریں اور کسی بھی کارروائی سے گریز کریں اور امن و سلامتی برقرار رکھنے کے لیے مل کر کام کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایران اور پاکستان کو قریبی ہمسایہ اور اہم اسلامی ممالک کے طور پر دیکھتے ہیں۔