اسلام آباد: (سچ خبریں) اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ وہ غزہ کے ہسپتال پر حملے میں سیکڑوں افراد کی اموات کے بعد دہشت زدہ ہیں جبکہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو اس کے جنگی جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جائے۔
یہ حملہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ کے گنجان آباد علاقوں میں بلاجواز بمباری کا سلسلہ شروع ہونے سے اب تک پیش آنے والا سب سے خونریز واقعہ ہے جس میں 500 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔
فلسطین کی وزیر صحت مائی الکائلہ نے غزہ شہر کے الاہلی عرب ہسپتال میں ’قتل عام‘ کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس کی تردید کی ہے۔
ترک خبر رساں ادارے ’اے نیوز‘ کے مطابق نیتن یاہو کے ایک معاون حنانیہ نفتالی نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کی تھی جس میں ہسپتال میں ہونے والے حملے کو اسرائیلی فضائیہ سے منسوب کیا گیا تھا۔
تاہم بعد ازاں انہوں نے مذکورہ سوشل میڈیا پوسٹ فوراً ڈیلیٹ کردی اور ایک اور پوسٹ کرتے ہوئے حملے کا الزام حماس پر عائد کردیا، دیگر صحافیوں نے بھی حنانیہ نفتالی کے اس اقدام کی نشاندہی کی۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہا ہے کہ میں آج غزہ کے ایک ہسپتال پر حملے میں سیکڑوں فلسطینی شہریوں کی وفات پر شدید دہشت زدہ ہوں، میں اس حملے کی پُرزور مذمت کرتا ہوں۔
انہوں نے ’ایکس‘ پر لکھا میرا دل متاثرہ افراد کے خاندانوں کے ساتھ ہے، عالمی قانون کے تحت جنگ میں ہسپتال اور طبی امداد فراہم کرنے والوں کو تحفظ حاصل ہے۔
ایک اور پوسٹ میں انہوں نے مشرق وسطی میں فوری طور پر انسانی بنیادوں پر سیز فائر کا مطالبہ کیا تاکہ انسانی مصائب کو کم کیا جا سکے۔
انہوں نے لکھا کہ بہت ساری زندگیاں اور پورے خطے کی قسمت بےیقینی کا شکار ہوچکی ہے۔
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے غزہ میں ہسپتال پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتال کو ٹارگٹ کرنا ایک غیرانسانی عمل ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر انوارالحق کاکڑ نے لکھا کہ غزہ کے ہسپتال پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں، جس میں متعدد شہریوں کی جانیں گئیں، ہسپتال کو نشانہ بنانا غیر انسانی فعل ہے۔
انہوں نے لکھا کہ بین الاقوامی انسانی قانون ہسپتالوں اور طبی عملے کو تحفظ فراہم کرتا ہے، عالمی برادری پر زور دیتے ہیں کہ وہ تشدد کو روکنے کے لیے تیزی سے کام کرے۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ساتھ اپنی بات چیت کے دوران میں نے ان پر زور دیا تھا کہ عالمی برادری اسرائیل سے کہے کہ وہ بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام بند کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو اس کے جنگی جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے، وہ غزہ پر مسلسل بمباری اور محاصرہ جاری رکھے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں اموات اور بدترین تباہی ہوئی ہے اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ اسرائیلی قبضے کے حامیوں کو اپنی اُن پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے جو غزہ کے لوگوں کے خلاف دہشت گردی میں اسرائیلی حکام کو استثنیٰ فراہم کرتی ہیں۔
نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے ’گھناؤنا حملہ‘ اپنے دفاع کے لیے نہیں کیا گیا، یہ حملہ عالمی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے جس میں معصوم بچوں، خواتین، ڈاکٹر، طبی عملے اور پناہ کی متلاشی بے گھر شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
انہوں نے معصوم فلسطینیوں کے خلاف مظالم کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، غزہ پر مسلسل محاصرے اور حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ہمیں انسانی مصائب کو مزید جاری نہیں رہنے دینا چاہیے، اب عمل کرنے کا وقت آگیا ہے۔
دفتر خارجہ نے اسرائیلی حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر انسانی فعل ہے جس کا کسی صورت دفاع نہیں کیا جا سکتا۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ شہری آبادی اور طبی مراکز کو اندھا دھند نشانہ بنانا عالمی قانون کی سنگین خلاف ورزی اور سراسر جنگی جرائم کا ارتکاب ہے۔
بیان میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ غزہ پر اسرائیلی بمباری اور محاصرے کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
امریکی صدر جو بائیڈن آج اسرائیل کا دورہ کریں گے، انہوں نے کہا کہ وہ ہسپتال پر حملے پر غمزدہ میں ہیں، انہوں نے اپنی قومی سلامتی کی ٹیم کو اس حوالے سے معلومات اکٹھی کرنے کی ہدایت کی ہے کہ وہاں ہوا کیا تھا۔
بائیڈن نے ایک بیان میں کہا کہ میں غزہ کے ہسپتال پر حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے ہولناک جانی نقصان پر غمزدہ اور شدید صدمے میں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ امریکا تنازعات کے دوران عام شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ کا واضح طور پر حامی ہے، ہم اس سانحے میں وفات پانے والے یا زخمی ہونے والے مریضوں، طبی عملے اور دیگر بے گناہوں کے لیے سوگوار ہیں۔
دریں اثنا اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر حمزہ یوسف نے کہا کہ برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ غزہ کے لوگوں کو تحفظ اور پناہ فراہم کرنے والا پہلا ملک بننے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
غزہ میں ہسپتال پر حملے کے بعد عمان میں سربراہی اجلاس منسوخ کردیا گیا جس کے سبب جو بائیڈن کا مشرقی وسطیٰ کا دورہ متاثر ہوا۔
اس دورے کو جو بائیڈن کے دورِ صدارت کا سب سے مشکل دورہ قرار دیا جارہا تھا کیونکہ وہ غزہ میں انسانی تباہی اور جھڑپوں میں اضافے کو روکنے کے ساتھ ساتھ 7 اکتوبر کے حملے پر اسرائیل سے اظہار یکجہتی کے لیے یہ دورہ کر رہے تھے۔
لیکن علاقائی توازن کے قیام کے لیے ان کی کوششیں ان کے دورے کے موقع پر غزہ میں ہسپتال میں دھماکے کی خبر کے ساتھ دم توڑ گئیں۔
جیسے ہی بائیڈن ’ایئر فورس ون‘ کی سیڑھیوں پر چڑھے، اردن نے اعلان کیا کہ فلسطینی صدر محمود عباس، اردنی شاہ عبداللہ دوم اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کے ہمراہ 4 ملکی سربراہ اجلاس منسوخ کردیا گیا ہے۔
وزیر خارجہ ایمن صفادی نے کہا کہ یہ اجلاس اس وقت منعقد ہوگاجب سیز فائر اور اس قتل عام کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا جائے گا۔
تاہم وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے صدارتی طیارے میں سوار صحافیوں کو بتایا کہ اسرائیلی شدت سے یقین رکھتے ہیں کہ یہ ان کی وجہ سے نہیں ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اردن کا دورہ منسوخ کرنے کا فیصلہ باہمی طور پر لیا گیا کیونکہ فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا کہ وہ 3 دن سوگ کے لیے وطن واپس جانا چاہتے ہیں، بائیڈن ان سے اور سیسی سے ہوائی جہاز میں فون پر بات کریں گے۔
اس کے باوجود جو بائیڈن اب پہلے سے کہیں زیادہ غیر مستحکم صورتحال میں محو پرواز ہیں، ہسپتال پر حملے نے پورے خطے میں شدید غم و غصے کو جنم دیا ہے۔
مشتعل مظاہرین نے عَمان میں اسرائیلی سفارت خانے پر دھاوا بولنے کی کوشش کی جہاں بائیڈن دیگر رہنماؤں سے ملاقات کرنے والے تھے، جبکہ تہران میں سیکڑوں افراد نے فرانسیسی اور برطانوی سفارت خانوں کے باہر ریلی نکالی۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ جو بائیڈن اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی جاری رکھنا چاہتے ہیں، وہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے ساتھ بات چیت کریں گے اور ساتھ ہی حملوں میں ہلاک اور لاپتا ہونے والوں میں سے کچھ افراد کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کریں گے۔
تاہم جان کربی نے اصرار کیا کہ جو بائیڈن، نیتن یاہو سے اس تنازع کے حوالے سے اُن کے آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں ’سخت سوالات‘ پوچھیں گے۔