کراچی: (سچ خبریں)ڈینگی نے شہر قائد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جہاں روزانہ ہزاروں مریض سرکاری، نجی ہسپتالوں کے ساتھ دیگر ڈاکٹرز سے رجوع کر رہے ہیں، اگرچہ اس بیماری کے باعث اموات کی شرح کم ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈینگی بخار، ویکٹر سے پھیلنے والی وائرل بیماری ہے جس سے مچھروں کے کاٹے جانے سے خود کو محفوظ رکھ کر باآسانی بچا جاسکتا ہے۔
مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس وقت نجی اور سرکاری ہسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کی بڑی تعداد داخل ہو رہی ہے جب کہ فلو جیسی شکایات اور علامات کے ساتھ او پی ڈیز اور نجی کلینکس سے رجوع کرنے والے لوگوں میں ڈینگی کی تشخیص ہو رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق شہر کے 5 بڑے ہسپتالوں میں رواں سال ڈینگی کی وبا پھیلنے کے بعد سے کوئی موت رپورٹ نہیں ہوئی۔
ان پانچ ہسپتالوں میں سندھ انفیکشن ڈیزیز ہسپتال (ایس آئی ڈی ایچ آر سی) اور ریسرچ سینٹر، ڈاؤ یونیورسٹی ہسپتال، ڈاکٹر روتھ فاؤ سول ہسپتال کراچی (سی ایچ کے)، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (این آئی سی ایچ) اور جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) شامل ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال (اے کے یو ایچ) میں گزشتہ 6 ہفتوں میں سب سے زیادہ 11 اموات ہوئی ہیں، اس کے بعد لیاقت نیشنل ہسپتال (ایل این ایچ) میں مئی اور 9 ستمبر کے درمیان 3 اموات ہوئی ہیں، انڈس ہسپتال میں یکم اگست اور 8 ستمبر کے درمیان 2 اموات اور ساؤتھ سٹی ہسپتال میں ایک موت رپورٹ ہوئی۔
لیاقت نیشنل ہسپتال کے عہدیدار انجم رضوی نے بتایا کہ مئی سے اب تک ایل این ایچ میں کُل ایک ہزار 34 مریض صحت یاب ہوچکے ہیں، صرف تین افراد جاں بحق ہوئے جب کہ کئی مریض اب بھی زیر علاج ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مرنے والے 3 مریضوں کو ہسپتال میں تشویشناک حالت میں لایا گیا تھا۔
ڈاؤ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) ڈاکٹر زاہد اعظم نے کہا کہ اگرچہ ڈینگی کے مریض بڑی تعداد میں رپورٹ کر رہے ہیں لیکن ابھی تک ہسپتال میں کوئی موت ریکارڈ نہیں ہوئی۔
انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ہم روزانہ 40 سے 50 مریض داخل کر رہے ہیں جن میں سے 8 کو انتہائی نگہداشت کے یونٹ (آئی سی یو) میں منتقل کیا جاتا ہے جب کہ باقی تمام مریض ایک یا دو روز میں ڈسچارج ہو جاتے ہیں جن کا بعد میں کلینک یا او پی ڈی میں علاج کیا جاتا ہے۔
سندھ میں بچوں کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال ’این آئی سی ایچ’ کے ڈاکٹر واجد حسین کے مطابق اگرچہ اس سال ڈینگی کیسز کی تعداد زیادہ ہے لیکن مرض کی شدت کم ہے اور اموات کی شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگست سے اب تک 510 بچوں کی اسکریننگ کی گئی، ان میں سے نصف سے زیادہ 282 بچوں میں ڈینگی مثبت پایا گیا جب کہ کوئی موت نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں گزشتہ سال ڈینگی کے کیسز میں اموات کی شرح 2 سے 3 فیصد تھی جب کہ ہسپتال میں ٹیسٹ کیے جانے والے مریضوں میں سے 40 فیصد ڈینگی مثبت تھے۔
ایس آئی ڈی ایچ آر سی کے ایم ایس ڈاکٹر عبدالواحد راجپوت نے بتایا کہ فی الحال 49 مریض اس ہسپتال میں زیر علاج ہیں جن میں سے 8 بچے ہیں۔
انہوں نے ڈاکٹر واجد حسین کی رائے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ رواں سال ڈینگی کیسز کی تعداد 50 فیصد زیادہ ہے، ہسپتال میں مزید کئی مریض داخل ہونا چاہتے تھے لیکن ہسپتال میں جگہ ختم ہو چکی تھی۔
ماہرین کے مطابق اورل ری ہائیڈریشن اور متوازن غذا ڈینگی سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ڈاکٹر عبد الواحد راجپوت نے کہا کہ یہ بیماری اس وقت سنگین ہو جاتی ہے جب لوگ تھکن اور متلی محسوس کرتے ہوئے کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں، اس کے علاوہ جب مریض بیماری کو سنجیدہ نہیں لیتے، سیلف میڈیکیشن کرتے ہیں اور ڈاکٹر سے صرف اس صورت میں رابطہ کرتے ہیں جب صورتحال قابو سے باہر ہوتی ہے تو بیماری پیچیدہ ہوجاتی ہے۔