اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد ہائیکورٹ نے اہم ریمارکس دئیے ہیں کہ شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے کس پالیسی کے تحت نکالا گیا،دہرا معیار نہیں چل سکتا۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں سرمایہ کاری کے نام پر عوام کو لوٹنے کے ملزم کی درخواستِ ضمانت پر سماعت ہوئی۔
نیب کے مقدمے میں نامزد ملزم آدم امین نے نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کر رکھا ہے، دو رکنی بینچ نے دلائل سننے کے بعد نیب کیس میں ملزم آدم امین چوہدری کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے اہم ریمارکس دئیے کہ شہباز شریف، اسحاق ڈار، سلیمان شہباز کے نام کس پالیسی کے تحت ای سی ایل سے نکالے گئے ؟یہ دہرا معیار نہیں چل سکتا۔
عدالت نے ریمارکس دئیے کہ اب سب کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے تو درخواست گزار آدم امین کا نام کیوں ای سی ایل پر برقرار رکھا گیا؟ نیب اور وفاقی حکومت سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے۔
خیال رہے کہ گذشتہ سال سپریم کورٹ نے اداروں میں حکومتی مداخلت پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تو اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کا کون کہتا ہے، کبھی کسی سے پوچھا؟ اس کے جواب میں اٹارجی جنرل نے بتایا کہ ہمارے پاس خط آتا ہے متعلقہ شخص سے تفتیش جاری ہے، نام ای سی میں ڈال دیں۔ اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کا نام ای سی ایل سے نکال رہے ہیں تو کسی کو نوٹس تو دیں، تفتیش ہورہی ہے تو نیب یا اداروں سے پوچھنا چاہیے نام نکال رہے ہیں اعتراض تو نہیں ، نام نکال رہے ہیں اس بارےمیں ہم نہیں پوچھ رہے ہیں ، کیا پی پی سی اور نیب کے قانون میں کوئی فرق ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی پی سی اور نیب کے قانون میں فرق ہے ، نیب کے پاس اختیار ہے کہ ای سی ایل میں نام رکھنے کے لیے توسیع کا خط لکھے ۔
مشہور خبریں۔
پاکستان کی خفیہ اطلاع پر افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی، دیگر دہشت گردوں کیخلاف کارروائی
مارچ
یمن کی تقسیم کا منصوبہ ناکام
جنوری
امریکی صدارتی دوڑ میں کون آگے ہے؟
اکتوبر
پاکستان میں نیپاہ وائرس کا خطرہ ’کم‘، داخلی مقامات پر چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، این آئی ایچ
اکتوبر
مضبوط معیشت کے بغیر ملک کی سیکیورٹی ممکن نہیں، معید یوسف
اکتوبر
پاکستان میں 16 مئی کو یوم مردہ باد امریکا کے نام سے منایا جاتا ہے
مئی
اسرائیلی پالیمانی انتخابات،ہر بار دہرائی جانے والی باطل سیریز
مارچ
یہ تاثر درست نہیں کہ عدالتیں اداروں کے دباؤ میں کام کر رہی ہیں
نومبر