اسلام آباد: (سچ خبریں) پاکستان بار کونسل اور عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے 3 ججوں کے ناموں پر دوبارہ غور کرنے کے اقدام پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان بار کونسل کے علاوہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سندھ بار کونسل نے بھی قراردادوں کے ذریعے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ان ناموں کو پہلے ہی مسترد کیا جا چکا ہے۔
دوسری جانب وکلا کمیونٹی نے کل ہونے والے اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کی جانب سے ان ناموں کی ممکنہ منظوری کی صورت میں ایسی کسی بھی نامزدگی کو چیلنج کرنے کا عہد کیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک خط میں کل ہونے والے اجلاس کو قانون سے متضاد قرار دیتے ہوئے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ 28 جولائی کو ہونے والے آخری اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کی جانب سے مسترد ہونے والے 3 افراد کے نام کیوں دہرائے جا رہے ہیں۔
جوڈیشل کمیشن کا اجلاس چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد وحید، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شفیع صدیقی کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی بطور سپریم کورٹ جج تعیناتی پر غور کے لیے بلایا ہے۔
بار کونسلز کو جسٹس اطہر من اللہ کی نامزدگی پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن انہوں نے دیگر امیدواروں کی نامزدگی پر تشویش کا اظہار کیا جن کے نام پہلے ہی مسترد کیے جاچکے ہیں۔
جوڈیشل کمیشن کے ارکان نے اس سلسلے میں ایک قرارداد منظور کی اور اس کی کاپیاں کمیشن کے تمام اراکین کو بھجوا دیں، اس قرارداد میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ اگر کل ہونے والے اجلاس میں ان نامزدگیوں کی منظوری دی گئی تو اسے متعلقہ عدالت میں چیلنج کریں گے۔
انہوں نے سندھ بھر میں عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کی تجویز دیتے ہوئے کل ہڑتال کی کال بھی دے دی۔
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل حفیظ الرحمٰن چوہدری اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے ایک مشترکہ بیان میں لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے 3 ’جونیئر ججوں‘ کی نامزدگی پر شدید تشویش اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
انہوں نے جوڈیشل کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ سپریم کورٹ میں تعیناتیوں کے لیے من پسند انتخاب کا سلسلہ روکیں ورنہ پوری طاقت کے ساتھ اس کی مزاحمت کی جائے گی۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس طرح کی نامزدگیوں سے ہائی کورٹس کے دیگر ججوں کی حوصلے شکنی ہوتی ہے اور ان کے کام پر بری طرح اثر پڑتا ہے، انہوں نے یاددہانی کروائی کہ جوڈیشل کمیشن کے کچھ ارکان نے جونیئر ججوں کی نامزدگیوں کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
سندھ بار کونسل کی جانب سے منظور اور بار کے 15 مختلف رہنماؤں کی جانب سے دستخط شدہ قرارداد میں سندھ ہائی کورٹ سے صرف 2 ججوں کو سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے نامزد کرنے پر مایوسی کا اظہار کیا گیا جبکہ سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سجاد علی شاہ) کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ 3 اسامیاں پیدا ہوئی ہیں۔
قرارداد میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ اس اقدام سے سندھ کے ججوں کی جگہ پنجاب کے ججوں کی تعداد بڑھ کر 8 ہو جائے گی۔
دریں اثنا سندھ بار کونسل نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے ہائی کورٹس کے جونیئر ججوں کی نامزدگی کے خلاف وکلا کل صوبے بھر میں عدالتی کارروائیوں کا بائیکاٹ کریں گے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق سندھ بار کونسل کے دفتر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ارکان اختر حسین اور سید حیدر امام رضوی نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ میں تعیناتیاں ہیر پھیر کے بجائے سنیارٹی کے اصول پر شفاف طریقے سے کی جائیں۔
وکلا کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ مُلک میں ہائی کورٹ کے سب سے سینئر جج ہیں لیکن انہیں سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے نامزد نہیں کیا گیا۔
انہوں نے جوڈیشل کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ سندھ ہائی کورٹ کے 3 سینئر ترین ججوں کو سپریم کورٹ میں تعینات کریں اور چوتھے جج کو بطور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ مقرر کریں۔