کراچی 🙁سچ خبریں) کراچی کی صنعتی برادری اور سیاسی رہنماؤں کی شدید مخالفت اور نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے اراکین کی جانب سے توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے نقصان دہ معاشی اثرات پر شدید تحفظات کے باوجود پاور ڈویژن نے کے-الیکٹرک کے ٹیرف میں تقریباً 10 روپے فی یونٹ اضافے کی حیران کن درخواست دے دی۔
چیئرمین نیپرا وسیم مختار کی زیر صدارت عوامی سماعت میں ریگولیٹر کے کیس افسران نے بتایا کہ پاور ڈویژن کی جانب سے مانگی گئی 3 علیحدہ علیحدہ سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹس سے کے-الیکٹرک کے اوسط ٹیرف میں 8.70 روپے فی یونٹ کا اضافہ ہوا، لیکن جنرل سیلز ٹیکس لینے کے بعد مجموعی اثر بڑھ کر 11 روپے فی یونٹ ہو گیا، صنعتوں کے لیے 18 فیصد جی ایس ٹی کے علاوہ ٹیرف میں اضافہ 10 روپے فی یونٹ ہوگا۔
بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے نیپرا کے رکن مطہر نیاز رانا نے کہا کہ یہ صورتحال خوفناک ہے، صارفین اس دباؤ کو کیسے برداشت کریں گے اور صنعت کیسے زندہ رہے گی؟ بغیر ٹیکس کے صنعت کے لیے بجلی کے نرخ 37 روپے سے بڑھ کر 47 روپے فی یونٹ تک پہنچ جائیں گے۔
انہیں بتایا گیا کہ 700 یونٹ سے اوپر والے گھریلو ٹیرف کو بھی فی یونٹ 42 روپے سے بڑھا کر 52 روپے فی یونٹ (ٹیکس، سرچارجز اور مختلف لیویز کے علاوہ) کردیا جائے گا۔
سندھ سے رکن ٹیکنیکل رفیق اے شیخ اور رکن خیبرپختونخوا مقصود انور خان نے اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا کہ انڈسٹری ایکسپورٹ آرڈرز کو پورا نہیں کر سکے گی اور اس سے بے روزگاری بڑھے گی جو سب کے لیے شدید تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔
مطہر نیاز رانا نے کہا کہ اس سے معاشی سرگرمیاں متاثر ہوں گی اور وصولیوں پر منفی اثر پڑے گا اور اس طرح ٹیرف میں مزید اضافے کا ایک گھن چکر شروع ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاور ڈویژن کو ٹیرف پالیسی کا حساسیت کا تجزیہ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ مختلف کیٹیگریز میں شامل صارفین ادائیگی کر سکتے ہیں یا پہلے ہی ان کی برداشت کی حد کو عبور کر چکی ہے، لیکن اس جائزے کے حوالے سے کسی پیش رفت کا اظہار نہیں کیا گیا۔
پنجاب سے نیپرا کی ممبر لا آمنہ احمد نے ڈسکوز کے برابر کے-الیکٹرک کی بقایا سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی درخواست پر حکومت کی طرف سے منظور شدہ پالیسی گائیڈ لائنز پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاور ڈویژن ماضی کی تمام ایڈجسٹمنٹس کو قانونی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے حالانکہ 2 بار قانونی زبان کا مسودہ دیا گیا۔
پاور ڈویژن کے حکام نے کہا کہ انہیں نیپرا کی تحریری درخواست مل چکی ہے لیکن اگر کوئی پہلو ابھی تک غائب ہے تو نگران کابینہ سے نظرثانی شدہ توثیق حاصل کریں گے۔
کاروباری رہنما تنویر باری، عارف بلوانی اور امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاور ڈویژن نے انڈسٹری کو بند کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ مجوزہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ اور بیس میں 7.5 روپے فی یونٹ اضافے کے بعد جولائی سے لاگو ہونے والے ٹیرف ٹیکس پر اثر 20 روپے سے تجاوز کر گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت، کے-الیکٹرک کو بغیر کسی معاہدے کے گیس اور بجلی فراہم کر رہی ہے اور کے-الیکٹرک کے 50 ارب روپے سے زائد رقم صارفین تک نہیں پہنچ رہی، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ٹیرف میں اضافے کی درخواستوں کو مسترد کیا جائے۔چیئرمین نیپرا نے کہا کہ مجوزہ ٹیرف ایڈجسٹمنٹ بڑے پیمانے پر صنعت اور معیشت کے لیے نقصان دہ معلوم ہوتی ہے، حکومت کو متبادل آپشنز پر غور کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ صنعت کو بڑھتی ہوئی کھپت پر سستے نرخوں کی پیشکش کرنا چاہیے تاکہ قیمتوں کے بڑے دھچکے کے اثرات کو دور کیا جا سکے۔
جوائنٹ سیکریٹری پاور ڈویژن محفوظ بھٹی نے کہا کہ حکومت اس صورتحال کے حوالے سے حساس ہے اور محدود وسائل میں صنعتوں کو سہولت فراہم کرنے کے آپشنز پر غور کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک قلیل مدتی اقدام کے طور پر 47 پیسے اور 1.52 روپے فی یونٹ ایڈجسٹمنٹ کا اطلاق نومبر سے ہو گا جب 3 روپے 55 پیسے فی یونٹ کی پہلی ایڈجسٹمنٹ ختم ہو جائے گی۔
پاور ڈویژن نے اپنی پریزنٹیشن کے ذریعے کہا کہ کے-الیکٹرک کا ٹیرف فی الحال ڈسکوز سے کم ہے اور بیک لاگ کلیئر ہونے کے بعد اگلے چند مہینوں میں یہ قدرے زیادہ ہو جائے گا کیونکہ ڈسکوز کے صارفین پہلے ہی ان ایڈجسٹمنٹ کی ادائیگی کر چکے ہیں۔