اسلام آباد(سچ خبریں) حکومت نے تاحیات سیاسی نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ بار کی آئینی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسے کیس میں نظرثانی کے لیے جا رہی ہے جس کا فائدہ دو چار لوگوں کو ہی ہو گا۔حکومت آخری دم تک عثمان مرزا کیس کی پیروی کرے گی۔
وزیرقانون نے جیونیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسے کیس میں نظرثانی کے لیے جا رہی ہے جس کا فائدہ دو چار لوگوں کو ہی ہو گا اور 22 کروڑ لوگوں کا اس سے تعلق نہیں۔فروغ نسیم نے عثمان مرزا کیس سے متعلق کہا کہ شواہد اتنے مضبوط ہیں کہ مدعی یا گواہ کے مکر جانے سے بھی مقدمے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
حکومت آخری دم تک اس کیس کی پیروی کرے گی۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کی جانب سے آئین کی شق 62 (ون ایف) کے تحت تاحیات نااہلی کے خاتمے کیلئے درخواست تیار کرلی جو جلد ہی دائر کی جائے گی،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کی جائے گی۔درخواست میں تاحیات نااہلی کے اصول کا اطلاق صرف انتخابی تنازعات میں استعمال کرنے کی استدعا کی جائیگی ،سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی درخواست میں کہا گیا ہے آرٹیکل 184اور آرٹیکل 99 کی تشریح کی استدعا کی بھی کی جائے گی۔
یاد رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف پاناما لیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا جس کے بعد دسمبر 2017 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو فارنگ فنڈنگ کیس میں نااہل قرار دیا تھا۔
بعد ازاں اس بحث کا آغاز ہوا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیے گئے ارکان اسمبلی کی نااہلی کی مدت کتنی ہوگی، جس کے بعد اس مدت کا تعین کرنے کے لیے اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ آئین کی اس شق کے ذریعے نااہل قرار دیے گئے ارکانِ پارلیمنٹ تاحیات نااہل ہوں گے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے 13 درخواستوں کی سماعت کے بعد 14 فروری 2018 کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا تھا۔