اسلام آباد 🙁سچ خبریں) اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کا آج سے آغاز ہوگیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے گزشتہ ماہ عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس میں نااہل قرار دے دیا گیا تھا، گزشتہ روز ضلعی عدالت نے عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس میں فوجداری کارروائی کے لیے طلب کیا تھا تاہم وہ آج عدالت میں پیش نہ ہوئے۔
آج ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی زیرصدارت سماعت کے آغاز میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر وقاص احمد ملک سے عدالت میں حلف لیا گیا جوکہ عدالت کے سامنے لکھوایا گیا۔ ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر نے کہا کہ انہیں کیس کی پیروی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن خودمختار ادارہ ہے جو آئین پاکستان کے تحت کام کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بدعنوانی کو روکا جائے۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ و قومی اسمبلی اراکین الیکشن کمیشن میں اپنے گوشوارے سالانہ جمع کرواتے ہیں، عمران خان نے 2018 سے 2021 تک اپنے گوشوارے الیکشن کمیشن میں جمع کروائے۔ ضلعی الیکشن کمشنر کا بیان قلمبند کرنے کے بعد جج ظفر اقبال نے کیس کی مزید سماعت 8 دسمبر تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران خان کو جھوٹے بیان حلفی جمع کروائے جانے نااہل قرار دیے جانے کے ایک ماہ بعد عدالت نے طلب کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن نے عدالت کو ریفرنس بھیجا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بطور وزیر اعظم غیر ملکی معززین سے ملنے والے تحائف کے بارے میں حکام کو گمراہ کرنے پر عمران کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی کی جائے، ان کی سزا کے طور پر الیکشن کمیشن 3 برس قید اور جرمانہ عائد کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
ریفرنس میں شکایت کنندہ ڈپٹی الیکشن کمشنر اسلام آباد ہیں، اس ریفرنس میں کہا گیا کہ سال 18-2017 اور 19-2018 میں اثاثوں اور واجبات کے گوشواروں میں عمران نے جان بوجھ کر اپنے پاس رکھے گئے توشہ خانہ تحائف چھپائے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق توشہ خانہ سے تحائف ان کی تخمینہ شدہ قیمت کی بنیاد پر سوا 2 کروڑ روپے میں خریدے گئے تھے جبکہ ان کی قیمت تقریباً 10 کروڑ 80 لاکھ روپے تھی۔
الیکشن کمیشن کا مطالبہ ہے کہ عمران خان کو الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 167 (بدعنوانی) اور سیکشن 173 (جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے) کے تحت سزا سنائی جائے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے 21 اکتوبر کو عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے متفقہ فیصلہ سنایا تاہم فیصلہ سناتے وقت 4 ارکان موجود تھے کیونکہ رکن پنجاب بابر حسن بھروانہ طبیعت کی خرابی کے باعث کمیشن کا حصہ نہیں تھے۔
فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے، جہاں اس آرٹیکل کے مطابق وہ رکن فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیے جانے یا چنے جانے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنے مالی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹا بیان جمع کرایا، جھوٹ بولنے پر عمران خان عوامی نمائندگی کے اہل نہیں رہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نا اہل ہیں، سابق وزیراعظم نے جھوٹا بیان اور ڈیکلیئریشن جمع کروائی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 167 اور 173 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے اور توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔
یوں فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کر دیا گیا اور ان کی نشست خالی قرار دے کر الیکشن کمیشن ضمنی انتخاب کروائے گا۔