اسلام آباد: (سچ خبریں) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بیلٹ اینڈ روڈ اعلیٰ سطح فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی آر آئی ترقی و خوشحالی کا منصوبہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ آئیڈیا پر چینی صدر کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، بی آر آئی اور سی پیک کے دس سال مکمل ہوچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کنکٹی ویٹی اور عالمی معشیت سے متعلق اس فورم سے خطاب میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔
انوار الحق کاکٹر نے کہا کہ انسانی تاریخ میں سڑکوں نے ترقی اور ہماری زندگی تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، اس کا انسانی ترقی اور معاشی خوشحالی میں کلیدی کردار رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سفری اور تجارتی سہولیات میں اضافے سے اپنے تجربات اور خیالات کے اشتراک، ٹیکنالوجی و تخلیقی صلاحیتوں میں اضافے، ثقافتی تعلقات میں اضافے اور لوگوں کے درمیان روابط کو بڑھا سکتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ بے شک یہ جدید کنکٹی ویٹی ہی تھی جس کی وجہ سے جدید گلوبلائزیشن کا دور وجود میں آیا جس سے ہماری ہماری دنیا عالمی گاؤں میں تبدیل ہوگئی۔
وزیراعظم نے کہا کہ بی آر آئی ترقی و خوشحالی کا منصوبہ ہے، یہ صرف روڈ اور انفرا اسٹرکچر کا منصوبہ نہیں ہے بلکہ یہ لوگوں، تہذیب و ثقافت کو جوڑنے والا منصوبہ ہے، یہ باہمی تعلقات اور روابط کو مضبوط کرنے کا منصوبہ ہے جو ہماری دنیا کے لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہے، جس کا مقصد ایسے مستقبل کی تلاش ہے جو مشترکہ مستقبل کے لیے جو مجموعی طور پر انسانیت کے لیے سود مند ہو۔
انہوں نے کہا کہ ٹی آن شیا کا چینی نظریہ جس کا مطلب جنت کے نیچے زمین ہے، جو مختلف ہونے کے ساتھ باہمی تعاون کو فروغ دینے کے ساتھ مستقل امن کا ذریعہ بننا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری دنیا کو آج متعدد بے مثال چیلنجز کا سامنا ہے، سنگین ہوتے تنازعات، صدیوں کے دوران آنے والی وبائیں، بڑھتی عدم مساوات، ترقی یافتہ، ترقی پذیر ممالک کے درمیان بڑھتا فرق، خوراک و توانائی کے بحران اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہمارے طرز زندگی کو بقا کے خطرات لاحق ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جب تک ہم ان چیلنجز سے نمٹنے کی اپنی کوششوں کو دہرا نہیں کرتے تو خطرہ ہے کہ ہم اقوام متحدہ کے 2023 کے سسٹین ایبل ایجنڈا کے تحت حاصل کیے گئے کچھ اہداف کو بھی کھودیں گے۔
انوار الحق کاکٹر نے کہا کہ آج بھی کئی خطے خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں مناسب فیزیکل انفرا اسٹرکچر موجود نہیں ہے جو ان کی عالمی معشیت میں اپنا کردار ادا کرنے کی صلاحیت میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انفرا اسٹرکچر میں موجود اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ٹرانسپوٹیشن، توانائی اور ڈیجیٹل نیٹ ورکس میں مناسب سرمایہ کاری کرنے کی ضروت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل تقسیم بھی ایک اہم مسئلہ ہے، یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ ہر ایک کو ڈیجیٹل ایج میں موجود مواقع تک مساوی رسائی حاصل ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو پائیدار ترقی میں چین کا شراکت دار ہونے پر فخر ہے، ہم بی آر آئی کی سب سے پہلے حمایت کرنے والوں میں شامل تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ چینی صدر کے 2015 کے دورہ پاکستان کے دوران سی پیک کو آپریشنلائز کیا گیا، ہم نے اس منصوبے کے افتتاح کے دس مکمل کرنے کے موقع پر اس کے عوامی کی زندگی اور ان کے روزگار پر اس کے اثرات کی عکاسی کی۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ ہم نے پاکستان میں تقریبا 50 منصوبے مکمل کرچکے ہیں، سی پیک کے تحت مکمل کیے گئے ان منصوبوں کی مالیت 25 ارب ڈالر ہے۔
انوار الحق کاکٹر نے کہا کہ ایئر پورٹس، بحری بندر گاہیں، جدید موٹر ویز اور ریپڈ مانس ٹرانزٹ سسٹم نے ہمارے ٹرانسپوٹیشن نیٹ ورک کو بہت بہتر بنادیا ہے، شہر اور دور دراز علاقوں کے آپس میں جڑنے سے رسائی، سامان کی ترسیل اور لوگوں کی نقل و حرکت میں بہتری آئی۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ سی پیک منصوبوں کے تحت ہمارے نیشنل گرڈ میں 8 ہزار میگا واٹ بجلی کا اضافہ ہوا، اس کے علاوہ 10 ہزار میگا واٹ کے قریب کلین انرجی کے منصوبے 4 سے 5 برس کے دوران مکمل ہونے کی توقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے ملک کو محفوظ، کھلا، قابل اعتبار اور باصلاحیت کنکٹی ویٹی روڈز اور سرحدوں کےذریعے ٹریڈ ٹرانزٹ اینڈ ٹرانسپمنٹ ہب بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت گوادر میں پاکستان نے اپنی ڈیپ سی بندر گاہ کو آپیشنل کرچکا، جلد ہی گوادر میں ایک نیا ایئر پورٹ بھی آشریشنل کردیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ سی پیک نئے مرحلے میں داخل ہونے جا رہا ہے جہاں یہ ترقی کا کوریڈور بننے جا رہا ہے۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے گزشتہ روز موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف پاکستان کی لڑائی میں مدد اور ملک کے توانائی کے درآمدی بل کو کم کرنے میں تعاون کے لیے چین کو سولر پارکس میں سرمایہ کاری کی دعوت دی تھی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ سولر پارکس میں سرمایہ کاری سے دہرا فائدہ ہو گا، ایک طرف وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف پاکستان کی کوششوں میں معاون ثابت ہوگی تو دوسری جانب اس سے توانائی کے درآمدی بل کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔