اسلام آباد:(سچ خبریں) بھکر پولیس نے الزام عائد کیا ہے کہ سابق وفاقی وزیر اور رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) علی امین گنڈاپور نے ڈیرہ اسمٰعیل خان جاتے ہوئے داجل چیک پوسٹ پر چیکنگ کے لیے روکے جانے پر پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کردی جبکہ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما ڈاکٹر افتخار درانی نے پولیس پر سابق وفاقی وزیر پر قاتلانہ حملے کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) بھکر محمد نوید کے مطابق علی امین گنڈا پور ساتھیوں کے ہمراہ گاڑی میں ڈیرہ اسمٰعیل خان جا رہے تھے، داجل چیک پوسٹ پر انہوں نے انتہائی تیز رفتاری اور لاپروائی سے گاڑیاں زبردستی گزارنے کی کوشش کی۔
مزید بتایا کہ پولیس اہلکاروں کی جانب سے روکے جانے پر علی امین گنڈا پور نے ہنگامہ آرائی شروع کردی اور پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کے بعد فرار ہوگئے۔
واقعے کی اطلاع ملنے پر ڈی پی او محمد نوید داجل چیک پوسٹ پہنچے، انہوں نے کہا کہ معاملے کا جائزہ لیا جارہا ہے، علی امین گنڈا پور کے 4 گارڈز کو حراست میں لے لیا گیا ہے جن میں آفتاب، شکیل، الطاف اور نیک محمد شامل ہیں جبکہ ان کی گاڑی بھی تحویل میں لے لی گئی ہے۔
پولیس نے بتایا کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب باؤنڈری پر واقع داجل چیک پوسٹ پر ہرآنے جانے والی گاڑیوں کی انٹری کی جاتی ہے۔
دوسری جانب، پی ٹی آئی کے سینئر رہنما ڈاکٹر افتخار درانی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہاکہ سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کی گاڑی پر پنجاب پولیس کی جانب سے تین مختلف مقامات پر قاتلانہ حملے کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کے خوف سے حکمران مکمل طور پر درندگی پر اتر آئے ہیں، اس وقت ملک بھر میں نہ کسی کی جان محفوظ ہے نہ ہی املاک۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ ان واقعات کا فوری سوموٹو لے !! پاکستان کو جس آگ میں دھکیلا جا رہا ہے اس کے نتائج مثبت نظر نہیں آ رہے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی رہنما علی امین گنڈاپور قانون کی مبینہ خلاف ورزیوں کے سبب متعدد بار خبروں کی زینت بن چکے ہیں۔
گزشتہ برس پی ٹی آئی نے نئے انتخابات کے اعلان کے لیے وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے 28 اکتوبر کو لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کیا تھا، اس دوران وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں علی امین گنڈا پور کی مبینہ آڈیو جاری کی تھی، جس میں پی ٹی آئی رہنما دوسرے شخص سے بندوقوں کی تعداد، لائسنس اور بندوں کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔
آڈیو میں سنا جاسکتا تھا کہ دوسرا شخص بندوقوں کی تعداد اور لائسنس کے بارے میں جواب دیتا ہے کہ بہت ہیں اور بندے جتنے چاہئیں ہوں گے۔
تاہم علی امین گنڈا پور نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کی جانب سے بندوق اور لوگ جمع کرنے کی آڈیو جاری کیے جانے بعد ردعمل میں کہا تھا کہ اپنے لوگوں کا تحفظ کرنا میرا بنیادی حق ہے۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’رانا ثنااللہ! میں اپنے لوگوں کی حفاظت کروں گا اور یہ میرا بنیادی حق ہے، یاد رکھیں میں اسی طرح ردعمل دوں گا جس طرح آپ حملہ کریں گے اور میں دہراتا ہوں کہ میں جس طرح آپ حملہ کریں گے اسی طرح ردعمل دوں گا‘۔
قبل ازیں 2016 میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ علی امین گنڈاپور کی گاڑی سے اسلحہ اور شراب کی بوتل برآمد ہوئی ہے۔
پولیس نے بتایا تھا کہ بنی گالا جاتے ہوئے جب چیک پوسٹ پر علی امین گنڈا پور کو روک کر ان کی دو گاڑیوں کی تلاشی لی گئی تو وہاں سے 5کلاشنکوف،ایک پستول، 3 بلٹ پروف جیکٹس، گولیاں، شراب کی بوتل اور آنسو گیس کی شیلز برآمد ہوئے، علی امین گنڈا پور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تاہم ان کے ڈرائیور کو حراست میں لے لیا گیا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو میں علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ میری گاڑی میں 2 اے کے 47 رائفلز تھیں، دونوں کے لائسنس موجود ہیں، ایک کا لائسنس اسی گاڑی میں موجود ہے جو پولیس نے تحویل میں لے لیا ہے، نواز شریف سے زیادتی کا حساب لوں گا۔